یونیورسٹیا ں یا جامعات اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے وہ ادارے ہیں جہا ں سے نوجوان نسل علم و حکمت کے سر چشموں سے سیراب ہوتی ہےاور وہ ملک و قوم کے مستقبل اور اس کی قسمت کا تعین کرتی ہے۔ ۔جامعات ہر شعبۂ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی معیشت ،معاشرت، سیاست، مذہب و فلسفہ اور نظامِ خاندان کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہوتا ہےکہ جامعات میں نصاب تعلیم کیا ہے؟طریقۂ تدریس کیا ہےاور نظم و نسق اور تعلیمی نظام کی نوعیت کیا ہے؟چنانچہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تعلیمی عمل کےان تمام پہلوؤں پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔جس سے معیارِ تعلیم کا تعین ہوتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ جامعات میں رئیس جامعہ کی شخصیت، اس کا وژن ، تجربۂ تعلیم وتحقیق اور پیشہ وارانہ نظم و نسق کی صلاحیت جامعہ کے نظام تعلیم و تحقیق اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ نمو پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔چنانچہ رئیس جامعہ کا انتخاب ایک انتہائی اہم اقدام ہے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام کے اثرات جہاں دیگر شعبۂ ہائے زندگی پر پڑتے ہیں وہاں تعلیمی عمل خاص طور پر جامعات میں تعلیمی و تحقیقی عمل متاثر ہوئے بغیرنہیں رہتا۔اس وقت پاکستان کے تمام صوبوں کی بیسیوں جامعات سربراہِ جامعہ سے محروم ہیں جس سے متنوع مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جامعات میں یہ عبوری دور بہت حساس نوعیت کا ہوتا ہےخاص طور پر ایسی جامعات جو نوزائیدہ ہیں اور جن کے قیام کے بعد تا حال رئیس جامعہ کے ابھی چند ایک ادوارہی گزرے ہیں وہاں تعلیمی اور انتظامی معاملات بہت نازک مراحل سے گزرتے ہیں۔ایسی نوزائیدہ جامعات میں انتظامی ساخت جاندار اور متحرک نہیں ہوتی۔ ان کےبنیادی انتظامی شعبے سربراہ سے محروم ہوتے ہیں یا نا تجربہ کار۔ بعض جامعات میں اساتذہ کرام کوانتظامی عہدے سونپ دئیے جاتے ہیں جو اپنی تعلیمی قابلیت اور بصیرت کی بنا پرذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کما حقہ کو شش کرتے ہیں تا ہم پیشہ ورانہ قابلیت اور متعلقہ تجربہ کے فقدان کے باعث معاملات احسن طریقے سے انجام دینے میں کئی دشوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا کوئی انتظام بھی نہیں کیا جاتا اور اضا فی ذمہ داریوں کی بنا پر اساتذہ اپنے تدریسی فرائض اور تحقیقی ذمہ داریوں کو کما حقہ انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ستم ظریفی یہ کہ جامعات میں بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر بھرتیوں پر پا بندی عا ئد کر دی جاتی ہےمثال کے طورپرعام انتخابات کے دنوں میں جہاں سیاسی تعطل دیکھنے میں آتا ہےوہاں جامعات میں بھی تعلیمی نظم و نسق میں تعطل دیکھا جا سکتا ہے جو تعلیمی نظام کیلئے بہت خطرناک ثابت ہو تا ہے۔
پاکستان کی تمام جامعات میں تعلیمی نظم و نسق کی ایک خاص درجہ بندی مقرر کی گئی ہے جیسے ڈائریکٹر،ایڈشنل ڈائریکٹر۔ تعلیمی اورتحقیقی شعبہ جات میں بھی یہ درجہ بندی قائم کی گئی ہے۔ ان تمام درجہ بندیوں میں ہرانتظامی اور تعلیمی شعبہ میں کم از کم ذیلی درجہ کے ملازم کی تقرری بہت ضروری ہے۔ چنانچہ کسی بھی انتظامی شعبہ میں کم ازکم اسسٹنٹ ڈائریکٹرکا تقرربہت ضروری ہےجو کم و بیش وہی فرائض انجام دے سکتا ہے جو اس درجہ بندی میں بالا افسران انجام دے سکتے ہیں۔ ہرشعبہ میں اس طرح جب کم از کم ایک افسر اعلٰی کا تقرر کر دیا جائےتو اُس سے رئیس جامعہ کی عدم دستیابی کی صورت میں جامعہ میں انتظام و انصرام معمول کے مطابق چلتا رہے گا اور کسی قسم کی افرا تفری پیدا نہیں ہو گی۔پاکستان کی بعض جامعات میں دیگرجامعات کے رئیس جامعہ کواضافی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جو بہت احسن اقدام ہے۔اس سے متعلقہ جامعہ میں ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے اور تعلیمی و انتظامی ڈھانچہ نا صرف قائم رہتا ہےبلکہ معمول کے تعلیمی معاملات جاری و ساری رہتے ہیں۔اضافی ذمہ واریوں کے حامل رئیس جامعہ تدریسی اور انتظامی عہدوں پر تقرریاں کرنے کے بھی مجاز ہوتے ہیں جس سے جامعہ میں تعمیر و ترقی کے نئے دروا ہوتے ہیں۔تاہم سنگین صورتِ حال میں کسی دوسری جامعہ کے سربراہ کا تعین ممکن نہیں ہوتا ۔دریں اثنا جامعہ میں پرووائس چانسلر کووائس چانسلر کی ذمہ واریاں سونپ دی جاتی ہیں۔البتہ بعض جامعات ایسی ہیں جہاں پرو وائس چانسلر کا انتخاب ممکن نہیں ہے کیو نکہ وہاں کوئی بھی استاد اس عہدہ کیلئے اہل نہیں ہےایسی صورت حال میں رئیس جامعہ کا تقرربہت سنجیدگی اختیار کر جاتا ہےجہاں دیگر جامعہ کے سربراہ کو اضافی ذمہ داریاں سونپنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ماہرین تعلیم کے لئیے ایک دلچسپ منظراس وقت دیکھنے میں آتا ہےجب پرووائس چانسلرکو وائس چانسلر کی ذمہ داریاں سونپ دی جا تی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہےکہ ایسا سربراہ چونکہ جامعہ کے سینئر اساتذہ میں سے ہی منتخب ہوتا ہے اور اس کے کم و بیش تمام تعلیمی وغیرتعلیمی ملازمین سے تعلقات ہوتے ہیں چنانچہ اس واقفیت ،آگہی اورانس کی بنیاد پر بعض اوقات ایسے سربراہِ ادارہ کا وہ اثرورسوخ نہیں ہوتا جو کہ ایک مقررہ مدت کیلئے مقرر ہونے والے رئیس جامعہ کا ہوتا ہے۔بعض نو زائیدہ جامعات میں مقرر ایسے رئیسِ جامعہ کی حکم عدولی بھی کی جاتی ہے۔اور ان کے احکامات کوسنجیدہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایسی جامعات جہاں کوئی بھی سربراہ نہیں ہوتا وہاں بعض اوقات کئی سازشیں جنم لیتی ہیں۔تدریسی اورغیر تدریسی ملازمین اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔اور اس سے تعلیمی ما حول خراب ہوتا ہے۔چانچہ ایسی جامعات میں سربراہِ ادارہ کا تقرر ایمبرجنسی بنیادوں پر کرنا چاہیئے تاکہ ادارہ میں تعلیمی اضطراب اور بے چینی کو ختم کیا جا سکے۔