9 مئی کے واقعات سے لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حالات معمولی نوعیت کے نہیں رہے۔ عمران خان کی گرفتاری پرعوامی ردعمل اشتعال انگیزی کی حدوں کو پار کر گیا۔سیاسی قیادتیں و اسٹیبلشمنٹ حالات کی سنگینی سے ناآشنا نہیں ہیں ۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی بریفنگ میں متفقہ طور پر شدت پسندی کا بھرپور جواب دینے کا اعادہ کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے عمران کی گرفتاری پر اٹھنے والا گرد و غبار عارضی طور پر بٹھا دیا لیکن دہشت سے لبریز اقدامات نے پاکستان کے ماتھے پہ سیاسی شدت پسندی کا ایک سیاہ ٹھپہ ثبت کردیا۔
ماضی میں جب بھی حکومت و اپوزیشن کے مابین ڈیڈ لاک کی صورتحال پیش آئی تو مصلحت کیلئے تیسری قوت اپنا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ 9مئی کو سیاسی تاریکی اپنے عروج پہ رہی جب مشتعل مظاہرین نے ریڈ لائن کراس کر دی۔ عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر سرکاری و ریاستی املاک کی توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ صرف پشاور میں 9مئی کو 32مقامات جبکہ 10 مئی کو 40مقامات نذرِ آتش کر دیئے گئے۔بہت سی یادگارِشہداء و مجسمے توڑ دیئے گئے جیسے ملک کیلئے جان قربان کر کے انہوں نے کوئی کوتاہی کی ہو۔ اسی طرح کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جسے حملہ کے بعد سے جناح ہاؤس کے طور پر ہی جانا جا رہا ہے پر پی ٹی آئی کے شدت پسندوں کا حملہ کسی صورت بھی justify نہیں کیا جا سکتا۔ ان اقدام کی سختی سے مذمت کے ساتھ قانون ہاتھ میں لینے والوں کیخلاف عملی اقدامات بھی انتہائی ضروری
ہیں۔ جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہ دی۔ صرف پنجا ب میں چھ ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔9مئی کے بعد سے حکومتِ پنجاب نے صوبہ کے چپہ چپہ پہ لاء انفورسمنٹ ایجینسی کے اہلکاروں کی لائنیں لگوا دیں کیا ہی بہتر ہوتا اگر ایسے انتظامات پہلے اٹھا لئے جا تے۔خوشی اس بات کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ و حکومت ایسے عناصر کیخلاف مکمل طور پر ایک پیج پہ ہیں اور گذشتہ چھ سے سات دنوں میں لگ بھگ ساڑھے تین سے چار ہزار گرفتاریاں صرف لاہور میں کی جا چکی ہیں۔ سول و ملٹری قیادت اس بات پر متفق ہیں کہ 9مئی سانحہ میں ملوث ملزمان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔لیکن یہ لاء انفورسمینٹ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ملزمان کیخلاف اٹھائے گئے اقدامات میں کوئی بے گناہ زیرِِعتاب نہ آئے۔
جمہوری ماحول میں کسی بھی ریاست کو اپنی طاقت کبھی تحلیل نہیں ہونے دینی چاہئے۔ جہاں ہم شدت پسند عناصر کیخلاف اقدامات کی آواز اٹھا رہے ہیں وہیں ان مقامات کی حفاظت یقینی نہ بنانے والوں کی ناکامی کا تعین ہونا بھی ضروری ہے۔اگر اس مرتبہ آزاد تحقیقات نہ کی گئیں اور تمام زمہ داروں کا تعین نہ ہوا تو کارروائی ادھوری رہ جائے گی۔ ہمیں ناصرف ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے بلکہ آئندہ کیلئے سبق آموز اقدامات بھی اٹھانا ہونگے۔ ایک طرف عوام مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ ہیں،پولیس کی سیاسی پکڑ دھکڑ میں مصروفیت کے باعث ملک میں جرائم کاگراف بھی بلندی کی جانب گامزن ہے، ایسے حالات میں عوام کی فرسٹریشن میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ جب عوام کیلئے کوئی اور تفریحی انتظام نہیں ہو گا تو کسی کے بہکاوے میں آکر وہ شدت پسندی کی طرف آسانی سے مائل ہونگے۔ اب بظاہر عمران خان کی گرفتاری نوشتہ دیوار ہے چاہے فوری ہو یا بدیر۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگی جو پیرا شوٹ کے زریعے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے وہ اسی طرح خود کو الگ بھی کر لیں گے کیوں کہ اس جماعت نے ریڈ لائن کراس کی ہے جو کسی صورت قابل برداشت نہیں۔