ریبیز‘‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب پاگل پن یا غصہ ہے، جو اس بیماری کی نمایاں علامات میں سے ایک کی عکاسی کرتا ہے۔ اس بیماری کی تاریخ تقریبا ہزاروں سال پرانی ہے اور اس کا تذکرہ مصر، یونان اور ہندوستان کی مختلف تحریروں میں ملتا ہے۔ مختلف علاقوں اور مذاہب میں اس بیماری کو لے کر بہت سی توہمات پرستیاں اور غلط فہمیاں رہی ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ اس بیماری کے پیچھے کتے یا بھیڑیے کے کاٹنے کے علاوہ بری روحیں یا مافوق الفطرت چیزیں بھی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں بھی ہر سال تقریبا 50000 سے زائد لوگ دنیا بھر میں اس بیماری کی وجہ سے مر رہے ہیں کیونکہ یہ بیماری تقریبا دنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے ماسوائے چند مثلا انٹارکٹکا، آسٹریلیا اور امریکہ وغیرہ کے جہاں اس بیماری پر قابو پایا جاچکا ہے۔ ریبیز سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ایشیا اور افریقہ پہلے نمبر پر ہیں کیونکہ تقریبا 95 فیصد کیسسز ان ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ریبیز درحقیقت ایک مہلک زوناٹک (جانوروں سے انسان میں منتقل ہونے والی) بیماری ہے جوکہ وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس وائرس کا نام ریبیز وائرس ہے اور اسے بعض اوقات لیسا وائرس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا تعلق جینس لیسا سے ہے۔ یہ وائرس انسانی جسم میں کتے، بلی یا کسی اور پاگل جانور کے کاٹنے سے داخل ہوتا ہے اور داخل ہونے کے بعد یہ اپنی تعداد بڑھاتا ہے اور دماغ کی طرف جانا شروع کردیتا ہے جس کے لئے اسے ہفتوں سے مہینے لگ سکتے ہیں جوکہ اس چیز پر انحصار کرتا ہے کہ زخم جسم کے کس حصے
پر ہے اور کتنا گہرا ہے۔جانوروں میں اس بیماری کی علامات مختلف ہیں جوکہ مختلف مراحل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ شروع میں جانور کا رویہ تبدیل ہونا، بخار اور منہ سے رال کا ٹپکنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد جانور ہر چیز کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے اور آواز بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ آخری مراحل میں جانور کو لقوا، کوما اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر آپ کسی جانور میں یہ علامات دیکھیں تو اس کو فورا الگ کریں اور جانوروں کے ڈاکٹر (ویٹنیرین) سے رابطہ کریں۔
انسانوں میں اس بیماری کی علامات بخار، سر درد، قے، تھکاوٹ بھوک کا نہ لگنا وغیرہ سے شروع ہوتی ہیں۔ اور اس کے بعد رویہ میں تبدیلی، غصہ، منہ سے رال ٹپکنا، بے چینی، پانی اور روشنی کا ڈر، گلے کا لقوا، کوما اور بالآخر موت۔ لازمی نہیں ہے کہ ہر مریض میں یہ ساری علامات ظاہر ہوں بلکہ کاٹنے کے فورا بعد زخم کو اچھی طرح صابن (بالخصوص لائف بوائے) سے دھوئیں اور جتنا جلدی ہو سکے مریض کو ہسپتال لے کر جائیں اور ڈاکٹر کو مکمل بات(ہسٹری) بتائیں۔ ڈاکٹر کیس کی نوعیت کے مطابق ویکسینیشن، اینٹی باڈی ٹائیٹر یا دوسری ادویات کا استعمال کریگا۔اگر اس بیماری سے نجات کی بات کی جائے تو اس کا بہترین حل یہی ہے جانوروں بالخصوص پیٹس (پالتو جانور جیسا کے کتے، بلیوں) میں بروقت ویکسینیشن کروائی جائے۔ اور سٹرے (آوارہ) کتوں کی مناسب روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات انتہائی اہم ہیں۔ریبیز کا عالمی دن 28ستمبر کو منایا جاتا ہے ۔اس عالمی دن کا مقصد ریبیز سے بچاؤ، انسانوں اور جانوروں پر اس کے اثرات، ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں اور دنیا بھر میں اس کے ذرائع کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، کے بارے میں آگاہی بڑھانا ہے۔
ریبیز مہلک لیکن روک تھام کے قابل ہے۔ یہ ایک ویکسین سے بچاؤ کے قابل وائرل بیماری ہے۔ جو بہت سے ممالک میں رائج ہے اور کتے انسانی ریبیز سے ہونے والی اموات کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ پاگل جانور کے کاٹنے یا خراش سے RABV وائرس انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کہ اگر علاج نہ کیا جائے تو جان لیوا ہو سکتا ہے! اگر ریبیز کی ویکسین نمائش کے بعد جلدی دی جائے تو اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔