9/10مئی کو جو کچھ ہوا انتہائی افسوس ناک ہی نہیں بلکہ خوفناک بھی ہے ایک جماعت جو اپنے آپ کو سیاسی کہتی ہے، کے لوگوں نے ریاستِ پاکستان پر، اس کی عظمت اور طاقت کے نشانوں پر حملہ کیا۔جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، سرگودھا اور میانوالی ایئر بیسز اور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کیا۔ جناح ہاؤس مکمل طور پر جلا کر تباہ کر دیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے جواب میں ایسا کیا گیا یہ کوئی فوری یا اچانک ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ طے شدہ منصوبہ سازی کا حصہ تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کی قبل از وقت منصوبہ سازی کر رکھی تھی۔ٹارگٹ طے شدہ تھے انہوں نے مکمل منصوبہ سازی کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنایا اور ریاست کی کمزوری اور ناتوانی کا تاثر پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی۔ عمران خان ایک عرصے سے نہیں بلکہ روزاول سے ہی طاقت گالی گلوچ اور دھونس دھاندلی کی سیاست کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ایک مخصوص ترتیب قائم کی ہے۔ ایک خاص قسم کا کلچر پروان چڑھایا ہے۔ ایک پوری نسل اس کلچر میں پل بڑھ کر تیار ہو چکی ہے اور اب وہ اہداف کے حصول کے لئے کام میں لائی جا رہی ہے۔ 9/10 مئی کو اس کی ایک جھلک ہی نہیں بلکہ پوری فلم دیکھنے کو ملی ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک خوفناک فلم ہے۔ ہارر مووی ہے جس نے پوری قوم پر کپکپی طاری کر دی ہے۔ حیرت اور بے چارگی،تاثر پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عمران خان نے ببانگِ دہل کہا ہے کہ مجھے اگر دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر ایسا ہی ہوگا۔وہ دندناتے اور للکارتے پھر رہے ہیں، دوڑ بھاگ کر رہے ہیں، انہیں ہمارے سپریم کورٹ چیف ویلکم کرتے دکھائی دے رہے ہیں انہیں مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ بنچ نے حکم جاری کیا ہے کہ عمران خان کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جائے انہیں ایسے مقدمات میں بھی ضمانت فراہم کر دی گئی ہے جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے ہیں۔ چیف صاحب انہیں کہتے ہیں کہ ”ویلکم۔ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی“ کیا کسی عدالت نے کسی ملزم کو ویلکم کیا ہے، کرپشن کے کیس میں پیشی کے وقت ملزم کو خوش آمدید کہنا کیا تاثر دیتا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ کے کچھ جج اپنے کنڈکٹ سے عدالت کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوابلکہ وہ ایک عرصے سے ایسا کررہے ہیں۔ عمران خان کی محبت میں یا کسی اوروجہ کی بنیاد پر وہ ایسا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عدالت کی بے توقیری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اور ریاست کا رویہ بھی بہت زیادہ قابلِ ستائش نظر نہیں آ رہا، بلوائیوں اور شریروں کو گل کھلانے کی اجازت دینا، انہیں آہنی ہاتھوں سے روکنے کی کاوشوں کا نظر نہ آنا بھی شرمناک منظر ہے۔ ہم نے تو سنا ہے پڑھا ہے کہ ”ریاست کی طاقت لا محدود ہوتی ہے“…… اس سے ٹکرانا اور جیتنا ناممکن ہوتا ہے لیکن 9/10مئی کو ہم نے پی ٹی آئی کے بلوائیوں اور تخریب کاروں کے ہاتھوں ریاست کو ناکام ہوتے دیکھا ریاست و حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ کور کمانڈر ہاؤس کے سامنے پی ٹی آئی کے بلوائیوں کو جمع ہوتے،نعرے لگاتے، ہم نے دیکھا وہ اتنے زیادہ نہیں تھے کہ انہیں منتشر کرنا ممکن نہ ہوتا۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ ایسی حساس جگہ تک پہنچے ہی کیسے؟ لاہور چھاؤنی کا علاقہ ہماری آرمی کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ بلوائی سیکیورٹی حصار کو بائی پاس کرکے یہاں تک کیسے پہنچے؟ پھر کور کمانڈر ہاؤس تو اور بھی زیادہ حساس جگہ ہے۔بلوائی اس کے سامنے 4گھنٹوں تک نعرہ زن ہے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ انہیں ہاؤس کو جلانے اور مکمل تباہی تک وہاں دندنانے کی کھلی چھٹی کیوں دی گئی؟ ریاست نے مکمل بے بسی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اتنے دن گزر جانے کے باوجود ریاست ابھی تک قراردادیں منظور کرنے سے آگے نہیں بڑھی ہے، گرفتاریاں تو بڑے زور و شور سے ہو رہی ہیں لیکن عدالتیں ملزمان کی رہائیوں کے دھڑا دھڑ آرڈر بھی جاری کر رہی ہیں۔ عمران خان کاؤنٹر پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی مظلومیت اور حکومت کی کمزوری کا تاثر پختہ کرنے میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی گھن گرج میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ گرفتاریوں کو انتقامی سیاست کا نام دے کر یہ تاثر پختہ کر رہے ہیں کہ حکومت انتہائی غیر مقبول ہو چکی ہے۔ عوامی اعتماد کھو چکی ہے اس لئے اعلان کردہ انتخابات سے فرار چاہتی ہے۔ عمران خان کیونکہ مقبول ہیں، ان کی عوامی پذیرائی بام عروج پر ہے۔
یہ عمومی تاثر ہے جسے حکومت کی کارکردگی پختہ کررہی ہے۔ گزرے 13/14 مہینوں کے دوران حکومت نے انتہائی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بالخصوص معاشی میدان میں تو بس اللہ ہی اللہ ہو گئی ہے یہ بات درست ہونے کے باوجود کہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن ڈیفالٹ کا خطرہ ہنوز موجود ہے۔ دوسری طرف مہنگائی ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ طلب و رسد کا نظام حکومتی گرفت میں نہیں ہے۔ حکومتی ترجیحات میں ”عوام کو ریلیف دینا“ کہیں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اشیاء ضروریہ اور اشیاء خورونوش کی قیمتیں حقیقتاً آسمان کو چھو رہی ہیں مہنگائی کی شرح پوری دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ ہے ڈالر کی اڑان اپنی جگہ مہنگائی کی اڑان تاریخی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ عوامی معیشت کے ڈیفالٹ ہونے کا تاثر پختہ ہو چکا ہے۔
9/10مئی کے واقعات نے جہاں عمران خان کی ملک دشمن سیاست کا چہرہ بے نقاب کر دیا وہیں حکومت اور ریاست کی کمزوری وناتوان کو بھی الم نشرح کر دیا ہے ابھی تک سوائے گرفتاریوں کے اور زبردست اعلامیوں کے اور کچھ ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ عمران خان اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے واقعات کو اور ہی رنگ دینے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ حکومت زمان پارک میں چھپے 40دہشت گردوں کی گرفتاری کے حوالے سے بھی اپنی ناتوانی کے تاثر کو پختہ کرر ہی ہے جبکہ عمران خان حکومتی اعلان کو جھٹلانے میں مصروف ہیں کیا ریاست پر حملہ آوروں کی گرفتاری کے لئے ایسا ہی رویہ اختیار کیا جانا چاہیے جیسا کہ ہماری صوبائی حکومت نے اختیار کر رکھا ہے؟ابھی تک ایسے دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف حکومتی و ریاستی رویہ افسوسناک ہے سانپوں اور سنپولیوں کو بند نہیں کیا جاتا انہیں کچلا جاتا ہے بغیر انتظار کے، بغیر رحم کے، عمران خان ان کی سیاست اور ان کے سہولت کار ریاست پاکستان کے باغی ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی، رحم یا کمزوری، ریاست پاکستان کے ساتھ ناانصافی ہوگی اس لئے جس قدر جلد ہو باغیوں کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔