کالم

دینی حلقوں میں نیا ہیجان……!

راناشفیق خان

پاکستان میں حکومتی تبدیلی پر دینی حلقے قدرے مطمئن دکھائی دئیے تھے مگر چند ہفتوں سے ان میں ایک اضطراب کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی پر فکر مندی شروع ہوئی تو کراچی میں معتدل عالم دین کے قتل نے اضطراب میں بڑھاوا کر دیا۔ اب حال ہی میں حکومت پنجاب نے حفاظِ کرام کے اضافی اعزازی نمبروں کا خاتمہ کیا ہے تو اس پر دینی حلقے غم و غصہ کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ان کے احتجاج کو سمجھنے کے لیے ’’تنظیمات وفاق المدارس‘‘ کے ایک سرگرم رکن جناب چوہدری یٰسین ظفر کی طرف سے جاری کردہ احتجاجی بیان دیکھا جا سکتا ہے۔ جو کچھ یوں ہے’’نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ حکومت پنجاب نے حفاظ کرام کے اضافی نمبرز کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ خبر ان طلبہ اور طالبات پر بجلی بن کر گری جنہوں نے بڑی محنت لگن اور خلوص سے قرآن حکیم زبانی یاد کیا۔ اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب میڈیکل میں داخلے کے لیے میرٹ بنایا گیا تو ان تمام طلبہ و طالبات کو حفظ القرآن کے اضافی نمبروں سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت پنجاب کے اس اقدام سے ان تمام طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور آئندہ کے لیے ان کا راستہ بند کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے جو قرآن حکیم سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں کو قرآن کے نور سے منور کرتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فی الفور اس غیر عادلانہ اور ظالمانہ فیصلہ کو واپس لیا جائے اور اضافی نمبروں کو بحال کیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر عظمت قرآن کو تسلیم نہ کیا گیا تو پھر کون سا ملک ایسا کرے گا۔ سابقہ روایات میں یہ اضافی نمبر تمام حفاظ کو ملتے رہے اور اچانک اس کا خاتمہ دانشمندانہ قدم نہیں ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل عاصم منیر بھی حافظ قرآن ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ حفظ القرآن کے لیے کس قدر محنت کرنا ہوتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا تو تمام وفاق المدارس اتفاق رائے سے راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات قرآن حکیم حفظ کرتے ہیں۔ یہ تمام طلبہ بھی احتجاج میں شامل ہوں گے۔‘‘اسلامیات والوں کو تعلیمی اداروں سے نکال دو۔ آغاز ہو گیا۔۔اسی سے ملتی جلتی ایک اور خبر نے بھی دینی حلقوں میں ’’غم و غصّہ‘‘ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس حوالے سے ایم اے او کالج کے ایک استاد اور بلاگر جناب عاصم حفیظ کی تحریر ملاحظہ کیجیے، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، کہ’’اب اسلامیات اور قرآن پاک کی لازمی تعلیم کے لیے اساتذہ کی خدمات نہیں لی جائیں گی۔ بہانہ بنایا گیا ہے۔ بجٹ کی کمی کا لیکن اصل مسئلہ کہاں ہے…… سب جانتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی سیکولر روایات رکھتی ہے۔ ہولی اور دیوالی مناتی ہے۔ وہاں اسلامیات والوں کا کیا کام؟۔ قانون میں تبدیلی تو فی الحال کر نہیں سکتے۔ لازمی مضمون ہے۔ حل یہ نکالا ہے کہ اساتذہ کی بھرتی اور جزوقتی تعیناتی روک دی جائے۔قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے رجسٹرار نے وائس چانسلر کے اپروول سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت سمسٹر خزاں 2023 میں بی۔ایس لیول پر پڑھائی جانے والی اسلامیات لازمی کو باقاعدہ اساتذہ کرام کی بجائے آن لائن موڈ کے ذریعے پہلے سے ریکارڈ شدہ لیکچرز طلبہ کو دکھائے جائیں گے۔ اس سے پہلے یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنس اور دیگر کئی جامعات قرآن پاک کی تعلیم کے پیپر ختم کر چکی ہیں۔ یعنی فی الحال پڑھایا تو جا رہا ہے۔ لیکن پیپر نہیں ہوتا۔ جس سے طلبہ کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب پیپر ہی نہیں ہونا تو کسے ٹینشن ہے پڑھنے کی۔کہا جا رہا ہے کہ یہ اقدام ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی آشیر باد سے فنڈز کی کمی کے سبب اٹھایا جا رہا ہے۔کتنا سادہ بہانہ ہے۔ بجٹ اور معاشی مسائل۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا فنڈز کی کمی صرف قرآن پاک کی تعلیم اور اسلامیات کے مضمون کے لیے ہے؟؟؟یہ پہلا مرحلہ ہے۔ بہانہ موجود ہے۔ بہت جلد اسلامیات کو بطور مضمون نصاب سے خارج کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ قائد اعظم یونیورسٹی اولین مثال بنے گی اور اس کو دیکھ کر دیگر تعلیمی ادارے بھی اسلامیات اور قرآن پاک کی تعلیم سے دستبردار ہوجائیں گے زیادہ سے زیادہ ویڈیو لیکچرز۔ دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ چلے گا۔ اور پیپر بھی نہیں ہو گا۔بہانہ بڑا مضبوط ہے۔ بجٹ کی کمی۔ اور بس مسئلہ حل……!حافظ قرآن کے نمبرز ختم کر دئیے گئے۔ اور اب اس اقدام سے اسلامیات پڑھنے والوں کے لیے ملازمت کے مواقع بھی ختم کئے جا رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے جس شعبے میں ملازمت ختم ہو جائے گی تو اس کی طرف رجحان ختم ہو جائے گا۔ دوسری جانب سندھ اور دیگر اداروں میں میوزک ٹیچرز بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ وسائل بھی دستیاب ہیں اور آلات موسیقی بھی خرید کر دئیے جارہے ہیں۔‘‘
اگرچہ کراچی میں علماء کرام قتل پر قتل ہوتے رہے ہیں مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے سکون تھا، لیکن تین ہفتے قبل کراچی میں پھر ایک متعدل عالم دین مولانا ضیاء الرحمٰن مدنی کو ہدف بنا کر قتل کر دیا گیا، قتل سے تھوڑا عرصہ قبل انہوں نے ’’استحکام پاکستان و پاک فوج سے یکجہتی‘‘ پر ایک پُر وقار سیمینار کرایا تھا جس میں تمام مکاتب فکر کے زعماء نے شرکت کی تھی، ان کے قتل پر اندرون و بیرون ملک بھر پور احتجاج کیا گیا تھا، دو روز قبل ان کے قاتلوں کی گرفتاری کی خبر آئی مگر اس خبر نے اطمینان کی بجائے اور زیادہ بے چینی پیدا کردی۔
’’ ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر مہیسر اور ایس ایس پی عرفان بہادر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ملزمان کے حوالے سے تفصیلات میڈیا کے نمائندوں کو بتاتے ہوئے کہا کہ انویسٹی گیشن ٹیم اور وفاقی حساس اداروں نے تمام شواہد اور ثبوتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ملزمان کا سراغ لگا کر انھیں گرفتار کیا ہے جو کہ عادی مجرم ہیں اورکراچی کے مختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کی سینکڑوں وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ڈی آئی جی کے مطابق مولانا ضیاء الرحمن مدنی کا قتل بھی ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر کیا گیا ملزمان کے قبضے سے برآمد 30 بور اور نائن ایم ایم پستول کو قتل میں استعمال کیا گیا جو واردات میں استعمال ہونے والے اسلحے سے میچ کر گیا ہے ۔‘‘
دینی حلقوں میں چہ مئگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ ایک عظیم و متعدل عالم دین، واقعی اسٹریٹ کرائم کی اندھی واردات کی نذر ہوگیا ؟ اور کیا پولیس تفتیش کو آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا جائے ؟ کیا پولیس نے مقتول کے اہلخانہ ، جامعہ ابی بکر کی انتظامیہ اور شروع دن سے اس کیس کی تفتیش کے لیے انتظامیہ سے رابطے میں رہنے والی ایکشن کمیٹی کو مطمئن کردیا ہے ؟ اور کیا یہ تینوں متاثرین پولیس تفتیش اور اس کے نتائج پر مطمئن ہو گئے ہیں یا تحفظات رکھتے ہیں؟ اگر ہاں تو وہ تحفظات کیا ہیں ؟ شروع دن سے انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی عرفان بہادر دعوے کرنے میں بہت محتاط تھے بس اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے کہ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ہماری سمت درست ہے اور ہم روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کو حل کرنے کے لئے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں تمام لاءانفورسمنٹ ایجنسیز روزانہ رپورٹ دے رہی ہیں۔ 30 ستمبر اور یکم اکتوبر کی شب اطلاع ملی کے قاتل گرفتار کر لیے گئے ہیں دو اکتوبر کی رات کو مقتول کے لواحقین ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے سامنے گرفتار چار ملزمان کو پیش کیا گیا سوال وجواب کا موقع بھی دیا گیا ملزمان کے اپنے اعترافی بیان بھی سنوائےگئے قتل کے وقت لوکیشن پر انکی موجودگی کے شواہد بھی دکھائے گئے ۔اس حد تک تو سب مطمئن تھے کہ قاتل گروہ یہی ہے لیکن ان کی بیان کردہ کہانی پر کئی تحفظات پیدا ہو گئے۔ ملزمان سے براہِ راست سوالات کرنے کے باوجود ورثاء کی مکمل تشفی نہیں ہو پائی۔ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے بھی ابھی تک کئی سوالات موجود ہیں۔خود تفتیشی ٹیم بھی مطمئن نہیں ہے گروہ کا سرغنہ بھی گرفتار نہیں ہوا یقیناً اس کی گرفتاری سے اہم حقائق سامنے آنا متوقع ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d