یہ چند سال پہلے کی بات ہے ۔ میں اپنے کلینک میں مریض چیک کر رہا تھا ۔ایک میاں بیوی اپنے چھوٹے سے بچے کو چیک کروانے لائے۔ یہ اُن کا پہلا بچہ تھا ۔ ساتھ بچے کی نانی تھیں جو کہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھیں جن کی چار بیٹیاں تھیں۔بیٹا کوئی نہیں تھا۔ خاصی دبنگ خاتون تھیں۔ (یہ باتیں بعد میں سامنے آتی گئیں۔) بچے کا باپ ٹیچر تھا اور ماں کویت کے کسی ہسپتال میں نرس تھی۔اِسی دوران لڑکی نے کہا کہ میں کویت میں اسٹاف نرس ہوں اور میں نے اگلے ہفتے واپس چلے جانا ہے ۔لڑکے نے بہت ہی دھیمی آواز اور بہت ہی ناگوار لہجے میں کہا ’’کوئی نہیں جانا‘‘ لڑکی نے اُسی ناگوار لہجے میں کہا ’’ کیوں نہیں جانا۔میری چھٹی جو ختم ہو رہیہھے‘‘۔میں اُن کی گفتگو سن کر لرز گیا۔مجھے لگا کہ یہ گھر اب ٹوٹ جائے گا لیکن چاہنے کے باوجود میں کچھ نہ کہہ سکا۔یہ واقعہ کئی دِن تک مجھے پریشان کرتا رہا۔ایک احساسِ جرم تھا کہ میں نے سمجھانے کی کوشش کیوں نہ کی۔وقت کے ساتھ میں اِس بات کو بھول گیا ۔ ایک دِن میں مریض چیک کر رہا تھا کہ وہی لڑکی اپنے بچے کو لے کر آئی ۔اُس نے ذکر کیا کہ میں اپنے بیٹے کی وجہ سے پریشان ہوں۔جب سے پاکستان آئی ہوں اِس کو کئی ڈاکٹروں کو دکھا چکی ہوں ۔میں نے دیکھا کہ یہ تو وہی کویت والی خاتون ہیں۔ لیکن وہ والی بات بالکل بھی نہیں تھی۔بلکہ یوں کہیں کہ خاصی پریشان لگ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ اِس کے ابّو کیسے ہیں؟ بس یہی پوچھنا تھا کہ بند ٹوٹ گیا ۔ رو رو کر ھچکیاں بندھ گئیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ’’ انہوں نے مجھے طلاق دے دی ہے۔‘‘
میں نے بتایا کہ بیٹا ! مجھے اُس دن آپ کو ایک دفعہ سمجھانا چاہئیے تھا جب آپ دونوں میں یہ ، یہ مکالمہ ہوا تھا ۔میں ایک احساسِ ندامت محسوس کرتا ہوں ۔اُس نے کہا کہ میری ماں نے میرا گھر اُجاڑا ہے ۔اُس کی تین اور بھی بیٹیاں ہیں ۔اُس نے میری کمائی کے لالچ میں مجھے برباد کر دیا ۔میرا خاوند میرے ایڈریس پر طلاق بھجواتا رہا اور میری ماں نے مجھ سے مکمل چھپایا۔ کاش مجھے ایک دفعہ پتہ چل جاتا تو میں سب کچھ چھوڑ کر آ جاتی۔میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ حدیثِ مبارکہ میں یہ کیوں فرمایا گیا ہے کہ ’’شیطان کو سب سے زیادہ خوشی ایک گھر توڑ کر ہوتی ہے۔ ؟ ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز کسی گھر کا ٹوٹنا کیوں ہے ؟
اُسکی وجہ یہ ہے کہ اِس سارے عمل میں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور جو سب سے زیادہ برباد ہوتے ہیں، وہ معصوم بچے ہیں ۔کبھی ماں لوریاں دیتی اور پھولوں اور پریوں کی کہانیاں سناتے سناتے اور کبھی ابّو جھولے جھلاتے ہوئے اپنی چھاتی پر سلاتے ہیں کہ ایک دم سارا سپنا ٹوٹ جاتا ہے ۔اُن کا معصوم ذھن سمجھ نہیں پاتا کہ یہ کیا ہو گیا ؟امّی پاس ہیں تو ابّو کیوں نہیں ہیں؟ ابّو ہیں تو لوریاں سنانے والی امّی کہاں گئیں ؟ اور یہ سب کچھ اک دم ایسے کیوں اور کیسے ہو گیا.اگر اور زیادہ بدبختی ہوئی تو کورٹ کچہری میں بچوں کو سالہا سال گھسیٹتے پھرتے ہیں ۔ عدالت کے باہر انتظار کرتی یا وکیل صاحب کے دفتر کے باہر بینچ پر بیٹھی ایک جوان عورت کو ہر مسٹندا گھورتا ہے۔ کہاں کی محبت، کہاں کا بچوں کا پیار؟ ایک ضد اور انا سب کچھ برباد کر دیتی ہے ۔بچے باپ جیت کر لے گیا تو سوتیلی ماں کے حوالے۔ماں لے گئی تو بوڑھی نانی جس کی اپنی ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں، پالے تو کیسے پالے۔اگلا گھر تو قبول نہیں کرتا ۔ وہ ہنستا بستا چمن اُجڑ گیا۔اور آگے مرد کو کونسی کوئی اللہ کی ولیہ مِل جانی ہے جو اُس کی زندگی کو جنت بنا دے گی اور دوسری طرف کونسا فرشتہ ہوگا۔؟
دوستو ! ہم ہر چیز کو اپنی پسند کے مطابق دیکھناچاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے” ہو سکتا ہے کہ ایک چیز آپ کو ناگوارہو اور اُس میں آپ کے لیے خیر ہو اور ایک چیز آپ کو پسند ہو اور اس میں آپ کے لیے شر ہو۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(القران۔)ہمیں زندگی میں ہمیشہ اپنوں کی قدر کرنی چاہیے اور اُن کی کمزوریوں کوتاہیوں کو فراموش کرکے اُن کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ فرشتے تو آسمانوں میں ہوتے ہیں۔بس تھوڑی سی سوچ تبدیل کریں تو جس انسان میں آپ کو شیطان دس خامیاں دکھاتا ہے،اُس میں بہت سی اچھائیاں بھی نظر آئیں گی۔ میرے آقا ؐ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح جسم میں دوڑتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ میں خود سوچ رہا ہوں اور فیصلے کر رہا ہوں لیکن دراصل وہ مکمل طور پر شیطان کے تابع ہو چکا ہوتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی ۔ایک اور حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر انسان کا ایک ساتھی شیطان پیدا ہوتا ہے(جسے ہمزاد کہتے ہیں) صحابہ میں سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی،لیکن وہ ایمان لے آیا ہے اور اب وہ مجھے اچھی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتا۔۔۔ لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو زندگی بھر کے پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ بندے کے اپنے عزیز بھی کبھی جذبات میں اور کبھی بد نیتی سے اُسے وہ مشورہ دیتے ہیں جو تباہ کن ہوتا ہے اور انسان اُس کو مان کر اپنا سب کچھ برباد کر بیٹھتا ہے۔ میاں محمد بخش نے سچ فرمایا: لکھ پیارے کول جے ہوون ،کدی خیال نہ آوے۔۔دور گیاں دِل نرمی ہووے ، اثر محبت پاوے۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو اپنی امان میں رکھے ۔آمین۔