قارئین ، ابھی تک دبئی میں ہوں اور اس کی ترقی کا مکمل راز جاننے کے لئے بے تاب ہوں ، مگر ابھی تک جو سمجھ میں آ سکا ہے وہ آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔ لاہور سے یہاں پہنچا تو ائیر پورٹ پر اترتے ہی احساس جا گزیں ہوا کہ ہم صحرا نشین اقوام سے پیچھے نہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں،یہاں عمارتیں صرف عمارتیں نہیں خوبصورتی ،ماحول دوست تعمیر اور پائیداری کا نمونہ ہیں،سڑکوں پر گاڑیوں کا رش ہے لیکن مجال ہے کہ گھنٹوں بیت جانے کے باوجود آپ کے ہاتھ ،چہرے یا لباس پر دھوئیں کے داغ آ سکیں۔میری رہائش یہاں برشا کے علاقے میں ہے ، اس سے آگے سمندر کا کچھ حصہ جھیل بنا دیا گیا ہے ،چھوٹی لگژری لانچیں چلتی ہیں،کناروں کے ساتھ کیفے اور ریسٹورنٹس ہیں ،کھجور اور پام کے درخت ہیں ،کھلے سمندر کے کنارے چلے جائیں تو مجال ہے جو کوئی شاپر بیگ، کھانے کے ریپر، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر کباڑ نظر آ جائے ۔سڑک صرف اس مقام سے عبور کی جا سکتی ہے جہاں زیبرا کراسنگ ہے ،گاڑی پارک کرنے کی فیس ہے ، لباس پہننے کی آزادی ہے لیکن اس پر اعتراض کرنے کا حق کسی فرد کو نہیں،یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دبئی ایک منظم زندگی کا شہر ہے۔
پاکستان کے بہت سے شہر دبئی سے زیادہ قدرتی وسائل کے مالک ہیں،پاکستان میں پانی کی کمی ہے لیکن اب بھی اس قدر وافر ہے کہ لوگ گلیوں میں بہاتے رہتے ہیں ، جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں اور مچھروں کی نرسریاں قائم ہو جاتی ہیں ، یہ ہماری سوک سینس کی سطح ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کو کس بے دردی سے لٹا رہے ہیں ۔دبئی میں ترقی کے عمل کا شاید ہی ہمارے فیصلہ سازوں اور ماہرین تعلیم نے تجزیہ کیا ہو،اس ریاست کے بارے میں زیادہ تر علم میڈیا کی کوریج سے ملتا ہے، خاص طور پر نیوز میگزین اور کاروباری رپورٹس سے، دنیا دبئی کی ترقی کو ایک ماڈل کے طور پر جانچ رہی ہے ، وہ ماڈل ہے وسائل کی کمی کے باوجود صرف دولت سے مزید دولت پیدا کرنے کا ماڈل۔
دبئی کی معیشت کا کیا بتائیں،ثانی بن احمد الزیودی، وزیر مملکت برائے خارجہ تجارت نے اعلان کیا کہ 10 برسوں میں متحدہ عرب امارات کی تیل کے بغیر تجارت 16.14 کھرب درہم (4.4 کھرب امریکی ڈالر) ہو چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جی ڈی پی 2021 میں 407 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 440 ارب ڈالر اور اگلے سال 467 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی طرح فی کس جی ڈی پی جو سال 2020 میں43,868 ڈالر تھی، بڑھ کر اس سال 48,822 ڈالر ہوجائے گی۔
انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے دبئی اور پورے متحدہ عرب امارات کو مجموعی طور پر منصوبہ بند آزاد منڈی کی سرمایہ داری کے طور پر بیان کیا ہے، تیل کی پیداوار، جو کبھی دبئی کی مجموعی جی ڈی پی کا 50 فیصد تھی، آج 1 فیصد سے بھی کم حصہ رکھتی ہے، 2018 میں تھوک اور خوردہ تجارت کل جی ڈی پی کے 26 فیصد کی نمائندگی کرتی تھی۔ نقل و حمل اور لاجسٹکس 12 فیصد، بینکنگ، انشورنس اور کیپٹل مارکیٹ 10 فیصد؛ مینوفیکچرنگ 9 فیصد، رئیل اسٹیٹ 7 فیصد تعمیرات 6 اور سیاحت 5 فیصد تھی۔تازہ اعداد وشمار میں سیاحت، مینو فیکچرنگ اور کیپٹل مارکیٹ کا حصہ بڑھ رہا ہے۔
آج دبئی نے ہوٹلوں کی تعمیر اور رئیل اسٹیٹ کو ترقی دے کر اپنی معیشت کا محور سیاحت کو بنایا ہے۔ پورٹ جبل علی، جو 1970 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، دنیا کی سب سے بڑی انسانی ساختہ بندرگاہ ہے لیکن یہ نئے دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر کے ساتھ IT اور فنانس جیسی سروس انڈسٹریز کے مرکز کے طور پر تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ایمریٹس ایئرلائن کی بنیاد حکومت نے 1985 میں رکھی تھی ،یہ اب بھی سرکاری ملکیت میں ہے، رواں ماہ مئی کے پہلے ہفتے ایمریٹس نے اپنے ملازمین کو چھ ماہ کی تنخواہ بطور بونس دی ہے۔
دبئی مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے سب سے بڑا کاروباری گیٹ وے ہے، دبئی انٹرنیٹ سٹی، اب دبئی میڈیا سٹی کے ساتھ دبئی ٹیکنالوجی، الیکٹرانک کامرس اور میڈیا فری زون اتھارٹی کے ساتھ مل کر ایک ایسا انکلیو ہے جس کے ممبران میں IT فرمز جیسے EMC کارپوریشن، اوریکل کارپوریشن، مائیکروسافٹ، سیج سافٹ ویئر اور IBM شامل ہیں۔ کئی میڈیا ہاوس جیسے ایم بی سی، سی این این، رائٹرز اور اے پی کے دفاتر یہاں کام کر رہے ہیں۔پاکستان کے بہت سے میڈیا اداروں کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ دبئی نالج ولیج بھی فری زون کے دیگر دو کلسٹرز، دبئی انٹرنیٹ سٹی اور دبئی میڈیا سٹی کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا ، جو کلسٹرز کے مستقبل کے کارکنوں کو تربیت دینے کے لیے سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ دبئی آو ٹ سورسنگ زون ان کمپنیوں کے لیے ہے جو آو ٹ سورسنگ کی سرگرمیوں میں شریک ہیں ۔یہاں کمپنیاںدبئی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مراعات کے ساتھ اپنے دفاتر قائم کر سکتی ہیں۔ دبئی کے بیشتر علاقوں میں پراکسی سرور کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندی ہے ۔یہاں کا انٹر نیٹ سرور متحدہ عرب امارات کی ثقافتی اور مذہبی اقدار کے منافی سمجھی جانے والی سائٹس کو فلٹر کرتا ہے۔
سیاحت دبئی میں آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور امارات میں غیر ملکی نقدی کے بہاو کو برقرار رکھنے کے لیے دبئی حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہاں کے دوستوں نے بتایا ہے کہ سیاحت کے شعبے نے 2017 میں جی ڈی پی میں تقریباً 41 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا، جو کہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد بنتا تھا اور یہ شعبہ تقریباً 570,000 ملازمتیں فراہم کرتا ہے، جو کل روزگار کا 4.8 فیصد بنتا ہے۔سال 2007 سے2017 کے دوران جی ڈی پی میں اس شعبے کی شراکت میں 138 فیصد اضافہ ہوا۔دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے 2016 میں 83.6 ملین مسافروں کو خوش آمدید کہا اور اسی سال 14.9 ملین سیاح دوبئی کے ہوٹلوں میں ٹھہرے، جو کہ 2015 سے 5% زیادہ تھا۔رواں برس سیاحوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ریکارڈ کی جارہی ہے ۔پاکستان سے لوگ تیزی سے یہاں کاروبار قائم کر رہے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کاروبار دوست ماحول نہیں۔
2020 سے اب تک 50,000 سے زیادہ اسرائیلیوں نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے کیونکہ تل ابیب اور دبئی کے درمیان روزانہ براہ راست پروازیں کوویڈ کے دوران بھی چلائی جاتی تھیں ، یوں دبئی خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کا حصہ بن رہا ہے ۔
2002 میں دبئی نے غیر ملکیوں کو رئیل اسٹیٹ میں ملکیت کی اجازت دی۔ورلڈ وِننگ سٹی ، ڈبلن اور لاس ویگاس، ایک تحقیقی پروگرام تھا جس کا مقصد مستقبل کی سب سے پرکشش پراپرٹی مارکیٹوں کی نشاندہی کرنا تھا۔دبئی کے محکمہ اقتصادی ترقی نے 3 جون 2021 کو ہدایات جاری کیں جن میں کہا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اماراتی شراکت دار رکھنا یا ان کے لیے کوٹہ کا تناسب ظاہر کرنا لازمی نہیں ہے، اس کا مقصد غیر ملکیوں کو دبئی میں کاروبار کی مکمل ملکیت کی اجازت دینا ہے۔دبئی کی ترقی قابل رشک ہے لیکن ساتھ ہی احساس دلاتی ہے کہ اپنے دیس میں سب کچھ ہے تو پھر وہ کیا کمی ہے جو ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔