پنجاب کے12 اضلاع میں خصوصی انسداد پولیو مہم کا آغاز15مئی سے ہوگا۔لاہور،راولپنڈی اور فیصل آباد میں مہم سات روز جاری رہے گی جبکہ دیگرنواضلاع بھکر، لیہ، ڈی جی خان،میانوالی، ملتان، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، راجن پور اور شیخوپورہ میں مہم کا دورانیہ پانچ روز ہوگا۔ پولیو کے خاتمے کی خصوصی مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے ایک کروڑآٹھ لاکھ 50ہزاربچوں کو ویکسیئن کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے،84ہزارسے زائد پولیو ورکرز خدمات سر انجام دیں گے۔وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ہدایت کی کہ انسداد پولیو مہم کو بھرپور انداز میں کامیاب بنایا جائے اور مسڈچلڈرن کی کوریج کیلئے مائیکرو پلانز بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جائے۔ پولیو کے مکمل خاتمے کیلئے سب کو ملکرقومی جذبے کیساتھ کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔حکومت صوبہ کوپولیو فری بنانے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبہ بھر میں پولیو مہم کو لانچ کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے انسداد پولیو کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ پولیو معصوم زندگیوں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔پولیو ایک مہلک مرض ہے جو ہمارے بچوں کو معذوری کا شکار کرتا ہے۔ آج کے دن اس بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ہم سب مل کر معاشرے کو آنے والی نسلوں کے لیے پولیو سے پاک بنا سکتے ہیں۔ والدین سے اپیل ہے کہ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائیں اور موذی مرض سے بچائیں ۔ پولیو ورکرز کو سلام پیش کرتا ہوں جو اس جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ معذوری بہت تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن پولیو ویکسین سے اس سے بچا جا سکتا ہے۔ پولیو کے خلاف جنگ قوم کے نو نہالوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔پولیو کے خاتمے کی خصوصی مہم کا آغاز آج سے ہو رہا ہے۔ پنجاب کے12 اضلاع میں خصوصی انسداد پولیو مہم کا آغاز15مئی سے ہوگا۔لاہور،راولپنڈی اور فیصل آباد میں مہم سات روز جاری رہے گی جبکہ دیگرنواضلاع بھکر، لیہ، ڈی جی خان،میانوالی، ملتان، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، راجن پور اور شیخوپورہ میں مہم کا دورانیہ پانچ روز ہوگا ۔پولیو کے خاتمے کی خصوصی مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے ایک کروڑآٹھ لاکھ 50ہزاربچوں کو ویکسیئن کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے،84ہزارسے زائد پولیو ورکرز خدمات سر انجام دیں گے۔ اللہ تعا لیٰ کے فضل و کرم سے پنجاب میں کافی عرصے سے پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ۔ پولیو وائرس کی موجودگی والدین کو خبردار کر رہی ہے کہ وہ ہر مہم کے دوران اپنے بچوں کو پولیو ویکسین کے دو قطرے ضرور پلائیں۔
انسداد پولیو مہم کے سپروائزرز، ہیلتھ ورکرز اور ٹیموں کو پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کے دوران مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ لاہور میں مہم کے دوران پولیو ورکرز کی سیکیورٹی کے لیے سینکڑوں پولیس افسران و اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ شہر کی 169 یونین کونسلوں میں انسداد پولیو ٹیموں کو جامع سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ انسداد پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ متعلقہ ایس ایس پی، ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انسداد پولیو ٹیموں کو فراہم کیے گئے سیکیورٹی انتظامات کا بذات خود معائنہ کریں۔ حکومت نے ڈولفن سکواڈ، پولیس ریسپانس یونٹس اور تھانوں کی ٹیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام یونین کونسلوں میں جہاں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم جاری ہے وہاں موثر گشت کو یقینی بنایا جائے۔ انسداد پولیو ٹیموں اور متعلقہ سپروائزری عملے کے ساتھ بدسلوکی، ہراساں کرنے یا تشدد کے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ خوفناک بیماریوں میں سے ایک تھا، جو ہر سال لاکھوں بچوں کو مفلوج کر دیتا تھا۔ ترقی پذیر ممالک میں پولیو کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر تسلیم کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگا۔ 1970 کی دہائی کے دوران لنگڑے پن کے سروے نے انکشاف کیا کہ یہ بیماری ترقی پذیر ممالک میں بھی پھیلی ہوئی تھی۔ نتیجتاً، 1970 کی دہائی کے دوران قومی حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کے حصے کے طور پر دنیا بھر میں معمول کی حفاظتی ٹیکوں کو متعارف کرایا گیا، جس سے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں اس بیماری پر قابو پانے میں مدد ملی۔
پولیو فرنٹ لائن ورکرز دہلیز پر پولیو ویکسین فراہم کریں گے۔ منصوبہ بند مہم کے دوران 6 سے 59 ماہ کی عمر کے بچوں کو وٹامن اے کے قطرے کی اضافی خوراک بھی پلائی جارہی ہے بچوں کی صحت اور محفوظ مستقبل کیلئے ملک کو پولیو فری بنانا ہوگا۔ پولیو کے مکمل خاتمے کیلئے سب کو ملکرقومی جذبے کیساتھ کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔تمام والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو چھپانے یا تمام ویکسینیشن مہموں کے دوران ضروری قطرے لینے سے انکار کرنے کے بجائے قطرے لازمی پلوائیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پولیو وائرس اب بھی ہمارے گردونواح میں موجود ہے اور کوئی بھی بچہ اس وقت تک محفوظ نہیں ہے جب تک تمام بچوں کو صحیح معنوں میں ویکسین نہیں پلائی جاتی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیو پروگرام پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقوں کے ساتھ شراکت داری میں کام کر رہا ہے، جن میں کمیونٹیز، مقامی اثر و رسوخ، اطفال اور طبی ایسوسی ایشنز، میڈیا، سماجی کارکنان، مذہبی رہنما اور پاکستان کرکٹ بورڈ اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔ وہ تمام ویکسینیشن اور پولیو فری پاکستان تک پہنچنے کے ہدف کے حامی ہیں۔
٭٭٭٭٭