کالم

حدیثِ پاک اور خود احتسابی!(2)

راناشفیق خان

اس حال میں مدت گزر گئی اور میں لوگوں کی خاموشی سے عاجز آ گیا اور پھر اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہؓ کے پاس باغ میں آیا اور سلام کیا اور اس سے مجھے بہت محبت تھی مگر خدا کی قسم! اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا میں نے کہا اے ابو قتادہ تو مجھے اللہ اور اس کے رسول کا طرفدار جانتا ہے یا نہیں؟ مگر اس نے جواب نہ دیا پھر میں نے قسم کھا کر یہی بات کہی مگر جواب ندارد! میں نے تیسری مرتبہ یہی کہا تو ابو قتادہ نے صرف اتنا جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کو خوب معلوم ہے پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا آنسو جاری ہو گئے اور میں واپس چل دیا۔
میں ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ ایک نصرانی کسان جو ملک شام کا رہنے والا تھا اور اناج فروخت کرنے آیا تھا وہ میرا پتہ لوگوں سے معلوم کر رہا تھا تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ کعب بن مالکؓ ہیں وہ میرے پاس آیا اور غسان کے نصرانی بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم پر بہت زیادتی کر رہے ہیں حالانکہ اللہ نے تم کو ذلیل نہیں بنایا ہے تم بہت کام کے آدمی ہو تم میرے پاس آ جاؤ ہم تم کو بہت آرام سے رکھیں گے میں نے سوچا یہ دوہری آزمائش ہے اور پھر اس خط کو آگ کے تندور میں ڈال دیا ابھی صرف چالیس راتیں گزری تھیں اور دس باقی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو میں نے کہا کیا مطلب ہے؟ طلاق دے دوں یا کچھ اور خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا بس الگ رہو اور طلاق نہ دو ایسا ہی حکم میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ملا تھا غرض میں نے بیوی سے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں میں جا کر رہو جب تک اللہ تعالیٰ میرا فیصلہ نہ فرما دے۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہلال بن امیہؓکی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہلال بن امیہؓ میرا خاوند بہت بوڑھا ہے اگر میں اس کا کام کر دیا کروں تو کوئی برائی تو نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کچھ نہیں مگر صرف یہی اس نے عرض کیا حضور اس میں تو ایسی خواہش ہی نہیں ہے اور جب سے یہ بات ہوئی ہے رو رہا ہے اور جب سے اس کا یہی حال ہے کعبؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے کچھ میرے عزیزوں نے کہا کہ تم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا کر اپنی بیوی کے بارے میں ایسی ہی اجازت حاصل کر لو تاکہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے جس طرح ہلال رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اجازت مل گئی ہے میں نے کہا خدا کی قسم! میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا فرمائیں میں نوجوان آدمی ہوں ہلال کی مانند ضعیف نہیں ہوں غرض اس کے بعد وہ دس راتیں بھی گزر گئیں اور میں پچاسویں رات کی صبح کو نماز کے بعد اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور زمین میرے لئے باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو چکی ہے۔
اتنے میں کوہ سلع پر سے کسی پکارنے والے نے نہایت بلند آواز سے کہا اے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ تجھے خوش خبری ہو اس آواز کے سنتے ہی میں خوشی سے فوراً سجدے میں گر پڑا اور یقین کر لیا کہ اب یہ مشکل آسان ہو گئی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھ کر ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان کر دیا تھا لوگ مجھے خوش خبری دینے آئے اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی کچھ خوش خبری دینے والے گئے۔ایک آدمی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے کو بھگاتے ہوئے میرے پاس آئے اور ایک بنی سلمہ کا آدمی سلع پہاڑ پر چڑھ گیا اس کی آواز جلدی میرے کانوں تک پہنچ گئی اس وقت میں اس قدر خوش ہوا کہ اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دیدیئے میرے پاس ان کے سوا کوئی دوسرے کپڑے نہیں تھے میں نے ابو قتادہؓ سے دو کپڑے لے کر پہنے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جانے لگا راستہ میں لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تمہیں مبارک ہو۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرما تھے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے طلحہ بن عبیداللہؓ مجھے دیکھ کر دوڑے مصافحہ کیا پھر مبارک باد دی۔خدا گواہ ہے کہ میں ان کا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے کعب! یہ دن تمہیں مبارک ہو جو سب دنوں سے اچھا ہے تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک میں نے عرض کیا حضور! یہ معافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے فرمایا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاف کیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا اور ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے۔پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنی اس نجات اور معافی کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے خیرات نہ کر دوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھوڑا کرو اور کچھ اپنے لئے بھی رکھو کیونکہ یہ تمہارے لئے فائدہ مند ہے میں نے عرض کیا ٹھیک ہے میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! میں نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات پائی ہے اب میں تمام زندگی سچ ہی بولوں گا خدا کی قسم! میں نہیں کہہ سکتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے اللہ نے کسی پر ایسی مہربانی فرمائی ہو جیسی مجھ پر کی ہے اس وقت سے جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سچی بات کہہ دی پھر اس وقت سے اب تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں امید کرتا ہوں کہ زندگی بھر خدا مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔(صحیح البخاری: کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک وقول اللہ عزوجل (وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا)(صحیح مسلم: کتاب التوبہ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ)(مسند احمد: حدیث کعب بن مالک الانصاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: