
حمص کے باشندے اپنے گورنروں کو پریشان اور ان کے خلاف شکایت کرنے میں مشہور تھے،جب بھی ان کے یہاں کوئی گورنر آتا،اس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی عیب ڈھونڈ نکالتے،اس کی شکایت دربار خلافت میں پہنچاتے، اور خلیفہ سے مطالبہ کرتے کہ اس کی جگہ پر اس سے بہتر حاکم مقرر یا جائے، یہ دیکھ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے طے کر لیا تھا کہ ان کے اوپر کسی ایسے شخص کو والی بناؤں گا جس کی سیرت وکردار پر انہیں کسی طرح سے اعترا ض اور نکتہ چینی کا موقع نہ مل سکے،انہوں نے ایک ایک کر کے اپنے تمام قابل اعتماد افسروں پر نظر ڈالی ،آخرکار ان کی نگاہ انتخاب حضرت عمیربن سعدؓ پر جاکر ٹک گئی ،ان کی نظر میں ان سے زیادہ مناسب کوئی دوسرا شخص نہیں تھا ۔انہوں نے شام کے علاقہ الجزیرہ میں غازیان اسلام کے ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے بہت سے شہروں اور قلعوں پر فتح کے پر چم لہرادیئے تھے اور متعد د قبائل کو مطیع فرمان کیا تھا، امیرالمومنین نے شام کے محاذ سے واپس بلا کر حمص کی گورنری کا عہدہ ان کے سپر دکیا اور وہاں جانے کا حکم دیا،حضرت عمیر بن سعدؓ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ کے مقابل کوئی چیز قابل تر جیح نہ تھی ،مگر انہوں نے امیرالمومنین کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔حضرت عمیر بن سعدؓ نے حمص میں گورنر کی حیثیت سے مکمل ایک سال گزارامگر اس مدت میں نہ تو انہوں نے دربار خلافت کو خط لکھا نہ مسلمانوں کے بیت المال کیلئے خراج وغیرہ کی کوئی رقم ہی بھیجی تو خلیفہ کے دل میں ان کے خلاف شکوک و شبہات نے سر اٹھانا شروع کیا، کیونکہ وہ اپنے گورنروں کے متعلق امارت کے فتنے سے ہمیشہ چوکنے اور ہوشیار رہتے تھے ،ان کے نزدیک رسول ﷺ کے سوا کوئی معصوم نہ تھا، انہوں نے اپنے کاتب کو بلا کر کہا، عمیر بن سعدؓکو لکھو کہ’’امیر المو منین کا خط پاتے ہی حمص کو چھوڑ دو ،دربار خلافت کے لئے روانہ ہوجاؤ او اپنے ساتھ خراج کی وہ پوری رقم لے کر آؤ جو تم نے اب تک جمع کی ہے۔خط پڑھ کر انہوں نے زادراہ کی تھیلی اٹھائی، کندھے پر پیالہ اور پانی کابرتن رکھا، ہاتھ میں نیزہ تھا ما اور حمص کو اپنے پیچھے چھوڑ کر پیدل ہی مدینہ پہنچے تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے ان کارنگ بدل گیا تھا، جسم نحیف اور لاغر ہوگیا تھا، سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے اور صعوبت سفر کے آثار ان کے اوپر پوری طرح سے نمایاں تھے ۔حضرت عمرؓ نے انہیں اس حا ل میں دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اور ان سے پوچھا : ’عمیر! یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟‘’’امیر المومنین !مجھے کچھ نہیں ہوا ہے ،خدا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ،میں اپنے ساتھ پوری دنیا اٹھا لایا ہوں۔‘‘عمیرؓ نے جواب دیا۔’’تمھارے ساتھ کیا ہے ؟‘‘(انہوں نے سمجھا کہ بیت المال کیلئے خراج کی رقم لائے ہیں) ’’میرے ساتھ میری تھیلی ہے جس میں زاد راہ رکھتا ہوں، میرا پیالہ ہے جس میں کھاتا ہوں،جس سے اپنا سر اور کپڑے دھوتا ہوں۔‘‘میرے ساتھ میرا مشکیزہ ہے جس میں وضواور پینے کا پانی رکھتا ہوں، ایک لمحہ تو قف کے بعد پھر بولے:’’امیر المو منین! میرے اس سامان کے علا وہ باقی دنیا میرے لئے بے ضرورت ہے مجھے اس کی کوئی احتیاج نہیں ۔‘‘’’کیا تم پیدل ہی آئے ہو ؟ہاں،اے امیر المو منین، بیت المال سے سواری کیلئے تمہیں کوئی گھوڑا نہیں ملا؟، نہ انہوں نے دیا،نہ میں نے ان سے مطالبہ کیا ۔تم بیت المال کیلئے جو رقم لائے ہو وہ کہاں ہے؟میں بیت المال کیلئے کچھ نہیں لایا ہوں۔وہ کیوں؟حمص پہنچا تو میں نے وہاں کے صلحاء کو جمع کر کے خراج کی وصولی اور اس کی فراہمی کی ذمہ داری ان کو سونپ دے تھی ، وہ جو کچھ بھی وصول کر کے لاتے میں ان کے مشورے سے وہ پوری رقم مستحقین میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔حضرت عمیر بن سعدؓ(وجہ بتاتے ہوئے کہا)یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب سے کہا،عمیرؓ کیلئے حمص کی گورنری کا پروانہ تجدید تحریر کرو ۔نہیں امیر المو منین ،اب میں یہ ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتا، نہ آپ کے بعد کسی دوسرے کیلئے ،حضرت عمیرؓ نے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
پھر وہ حضرت عمرؓ سے اجازت لیکر مضافات مدینہ کی ایک بستی میں چلے گئے جہاں ان کے اہل وعیال مقیم تھے ، عمیر بن سعدؓکو اپنی بستی میں آئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ حضرت عمرؓ نے ان کی آزمائش کا فیصلہ کرلیا،اور اپنے ایک قابل اعتماد شخص حارث کو بلا کر کہا ’’عمیرؓ کے یہاں جاؤ اور وہاں بہ حیثیت مہمان قیام کرو،اگر تمہیں ان کے یہاں خوش حالی اور کشادگی کے آثار نظر آئیں تو فورا واپس آکر مجھے آگاہ کرنا،اور اگر افلاس وتنگدستی کے حالات دیکھو تو یہ سودینار ان کے حوالہ کر دینا۔‘‘انہوں نے دیناروں کی تھیلی ان کوتھماتے ہوئے کہا،حارثؓ عمیرؓ کی بستی میںآئے،اور پتہ پوچھتے ہوئے ان کے گھر پہنچے،ملاقات ہوئی تو ان کو سلام کیا ،حضرت عمیرؓ نے سلام کاجواب دیتے ہوئے پوچھا،کہاں سے آئے ہو؟’’مدینہ سے ‘‘ مدینے کے مسلمان کیسے ہیں؟بخیر وعافیت‘ امیر المومنین کیسے ہیں وہ بھی بخیر ہیں،کیا وہ حدود کا نفاذ نہیں کررہے ہیں؟کیوں نہیں ،اے اللہ عمر کی مدد فرما،وہ تجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، انہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے کہا۔حارثؓ عمیر بن سعدؓ کے یہاں مہمان کی حیثیت سے تین رات مقیم رہے ،وہ رات ان کو جوکی ایک روٹی پیش کرتے،تیسرے دن ان کے قبیلے کے ایک شخص نے حارث سے کہا کہ تم نے عمیرؓ اور ان کے گھر والوں کو سخت پر یشانی میں مبتلا کر دیا ہے،ان کے پاس ایک ہی روٹی ہوتی ہے، یہ لوگ خود بھوک اور فاقہ کے ہاتھوں پریشانی ہونے کے باوجودتم کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں،اگر مناسب سمجھو تو تم میرے یہاں منتقل ہوجاؤ، اس کے بعد حارث نے دیناروں کی تھیلی نکالی اور لے جاکر عمیرؓ کے سامنے رکھ دی، عمیرؓ نے تھیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ،یہ کیا ہے ؟اسے امیرالمومنین نے آپ کیلئے بھیجا ہے۔اس کو واپس لے جاؤ اور ان کی خدمت میں میرا سلام پیش کرنے کے بعد کہنا کہ عمیرؓکو اس کی
ضرورت نہیں ہے،یہ سن کران کی اہلیہ بول پڑیں وہ اپنے شوہر اور مہمان کی گفتگو دروازہ کی اوٹ سے سن رہی تھیں،عمیرؓ اسے لے لیجئے ،آپ کو ضرورت ہو تو ،خرچ کیجئے ورنہ مستحقین میں تقسیم کردیجئے ،یہاں ضرورت مندوں اور محتاجوں کی کمی نہیں ہے،حارث دیناروں کی تھیلی عمیرؓکے سامنے چھوڑ کر واپسی کیلئے مڑ گئے، عمیرؓنے دیناروں کو لیا اور انہیں بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر راتوں رات ضرورت مندوں خصوصا شہداء کی اولاد میں تقسیم کردیا،ادھر حارث مدینہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا،حارث تم نے کیا دیکھا؟امیر المومنین !عمیرؓ اور ان کے اہل وعیال بڑے سخت حالات سے دوچار ہیں، تم نے دینار ان کو دے دیے تھے؟ہاں اے امیر المو منین۔ انہوں نے کیا کیا، مجھے نہیں معلوم، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس میں سے ایک دینار بھی اپنی ذات پر نہیں خرچ کریں گے۔تب حضرت عمرؓ نے حضرت عمیرؓبن سعد کولکھا۔’’میرا یہ خط تم کو ملے تو اسے اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے مدینے کے لئے روانہ ہوجاؤ۔‘‘حضرت عمیرؓنے مدینہ کارخ کیا اور دربار خلافت میں حاضر ہوئے، حضرت عمرؓ نے ان کاپرتپاک خیر مقدم کیا اور اپنے قریب بٹھاتے بولے ،عمیرؓ تم نے ان دیناروں کاکیاکیا؟ امیرالمومنین! جب وہ دینارآپ مجھے دے چکے ہیں تو اب آپ کو ان سے کیا غرض ہے؟ میںیہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے ان کوکہاں خرچ کیا؟میں نے انہیں جمع کر دیا ہے تاکہ وہ اس روز میرے کام آئیں جس روز مال اور اولاد کوئی چیز کام نہیں آئے گی۔یہ سن کر حضرت عمرؓکی آنکھیں جھلک پڑیں اور انہوں نے بھر ائی ہوئی آواز میں کہا:’’عمیرؓمیں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جوتنگدستی کے باوجود اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔پھر آپؓ نے ایک وسق غلہ اور دو کپڑے دینے کا حکم دیا،حضرت عمیرؓ نے کہا:’’امیر المومنین! غلہ کی ضرورت نہیں ،میں دوصاع جوگھر پر چھوڑ آیا ہوں،جب تک ہم اسے کھائیں گے، اللہ تعالیٰ ہمارے لئے رزق کابندوبست کر دیگا، البتہ کپڑے میں بیوی کیلئے رکھ لیتا ہوں،اس کے کپڑے بالکل بوسیدہ ہوچکے ہیں‘‘۔