جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں اور یہ نہایت ہی قبیح وصف ہے۔ جس میں یہ بری صفت یعنی جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ خدا اور انسانوں کے نزدیک بہت برا ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کتاب و سنت میں جھوٹ بولنے کی بڑی مذمت آئی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا ہے اور احسان نہیں مانتا ۔‘‘
آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں ،اور جھوٹ بولتے بولتے انسان خدا کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو العاص سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! جنت میں لے جانے وا لا عمل کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ’’جب بندہ سچ بولتا ہے تو وہ نیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھر پور ہو جاتا ہے اور جو ایمان سے بھر پور ہو جاتا ہے وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ اس نے پھر پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! دوزخ میں لے جانے والا عمل کیا ہے ؟ فرمایا: جھوٹ بولنا ۔جب بندہ جھوٹ بولے گا تو وہ گناہ کا عمل کرے گا اور جب گناہ کا عمل کرے گا تو کفر کرے گا اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا (مسنداحمد)
اس حدیث مبارکہ سے معلو م ہو ا کہ جھوٹ کے برے ہونے میں اتنی وسعت ہے کہ کفر بھی اس میں آ جاتا ہے اس سے زیادہ کوئی بُری چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ کار بہت وسیع ہے‘ وہ دنیا کے ذرّہ ذرّ ہ کو گھیرے ہوئے ہے‘ اس کی رحمت کی چھاؤں میں ساری کائنات آرام کر رہی ہے مگر رحمت الٰہی کے اس گھنے سائے سے وہ باہر ہے جس کا منہ جھوٹ کی بادِسموم سے جھلس رہا ہے ۔
اسلام کے محاورہ میں سخت ترین لفظ لعنت ہے۔ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں ۔قرآن مجیدمیں اس کا مستحق شیطان بنایا گیا ہے اور اس کے بعد یہودیوں ،کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے لیکن کسی مومن کو کذب (جھوٹ) کے سوا اس کے کسی فعل کی بنا پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا ۔جھوٹ بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو جھوٹا ہو اس پر خد اکی لعنت کی جائے۔ مباہلہ کے موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق خدائے تعالیٰ سے گڑ گڑ اکے دعا مانگیں کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ۔
سورہ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے ’’ پھر دعا مانگیں ،پھر جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔
جب شوہر بیوی پر بد کا ری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس صورت میں اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ یہ کہنا ہو گا ’’اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر جھوٹوں میں سے ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی بڑی لعنت ہے کہ جو اس کا مرتکب ہو تا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بد دعا کا مستحق ہو تا ہے ۔نفاق جھوٹ کی بدترین قسم ہے ۔اس لئے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’منا فق کی تین علامتیں ہیں 1 جب بات کرے تو جھوٹ بولے 2جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 امانت میں خیانت کرے۔‘‘
جھوٹ بولنے وا لے کا دل سیا ہ ہو جا تا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (موطا امام مالک) جھوٹ بو لنے والے کے منہ سے اتنی بدبو نکلتی ہے کہ فرشتے اس سے دور بھاگتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں‘ اس بد بو کے باعث جو جھوٹ بولنے سے پیدا ہوتی ہے ۔جھوٹ بولنے سے روزی میں بھی بے برکتی ہوتی ہے ۔آج کل تاجر حضرات دھڑلے کے ساتھ جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں اٹھا کر مال بیچ رہے ہوتے ہیں ان کے متعلق رسول اللہؐ نے فرمایا کہ والدین سے بھلائی کرنے سے عمر بڑھتی ہے اور جھوٹ بولنے سے روزی میں کمی اور بے برکتی ہو تی ہے۔ مومن کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا اور جو مومن ہو گا وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ رسو ل اللہؐ سے پوچھا گیا اے اللہ رسول! کیا مومن بز دل ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ہو سکتا ہے۔ پھر پوچھا گیا‘ کیا مومن بخیل بھی ہو سکتا ہے ؟ آ پؐ نے فرمایا کہ ہاں ہو سکتا ہے۔ پھر آپؐ سے پوچھا گیا کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں‘ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا کہ ایمان اور جھوٹ دو متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کا یکجا ہونا نا ممکن ہے جس طرح کفر و ایمان یکجا نہیں ہو سکتے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: کسی دل میں ایمان اور کفر اکٹھے جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر کفر ہے تو ایمان نہیں اور ایمان ہے تو کفر نہیں۔ اور جھوٹ اور سچ بھی اکٹھے جمع نہیں ہو سکتے اور خیانت اورامانت بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
جھوٹے آدمی کے لیے قیامت کے دن بڑی بڑی سزائیں ہیں ۔معراج والی حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ جھوٹے آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں ۔قبر میں بھی یہی سزا قیامت تک ہو گی۔جھوٹ کے بہت سے مرتبے ہیں۔ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بے ضرورت جھوٹ بول کر برا نہیں مانتے۔ جیسے بعض لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لئے ان سے جھوٹے وعدے کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو تھوڑی دیر میں بھول جائیں گے اور ہو تا بھی اکثر یہی ہے مگر جھوٹ بہر حال جھوٹ ہے ۔اسلام نے اس جھوٹ کی بھی اجازت نہیں دی۔ ایک کمسن صحابی عبد اللہ بن عامرt کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری ماں نے مجھے بلایا اور حضور انورؐ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے تو ماں نے مجھے بلانے کے لئے کہا کہ یہاں آؤ تجھے کچھ چیز دو ں گی ۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم اس کو کیا چیز دینا چاہتی ہو ؟ ماں نے کہا کہ میں اس کو کھجو ر دوں گی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ہاں اگر تم اس وقت کچھ نہ دیتیں تو یہ جھوٹ بھی تمہار ا لکھا جاتا ۔
بعض لوگوں کی عادت ہو تی ہے کہ جب ان کو کھانے کیلئے یا کسی اور چیز کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ تصنع و بناوٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ مجھے اس کی خواہش نہیں حالانکہ ان کے دل میں اس کی خواہش بھی موجود ہوتی ہے تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک صحابیہ خاتون نے رسول اللہؐ سے دریا فت کیا کہ ہم سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ شمار ہو گا؟ ارشاد ہوا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی جھوٹ لکھا جاتا ہے ۔
اسی طرح وہ بھی جھوٹ ہے جو خوش گپی کے مو قع پر محض لطف صحبت کے لئے بولا جا تا ہے ۔اس سے اگرچہ کسی کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ بعض مقامات پر دلچسپی کی چیز بن جاتا ہے۔ تاہم اسلام نے اسکی بھی اجازت نہیں دی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جو لوگو ں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس پر بڑے افسوس کی بات ہے‘ لوگوں کو خوش کرتا ہے‘ جھوٹ بول کر اپنی آخرت بربادکرتا ہے اور جھوٹ بولنا بڑی خیانت کی بات ہے ۔کیونکہ وہ خدا کا اور لوگوں کا امین ہے تو اس کو سچ ہی بولنا چاہیے۔ یعنی کسی صورت میں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘ اس سے کامل ایمان جاتا رہتا ہے ۔سب سے خطرناک جھوٹ وہ ہے کہ جھوٹ بول کر لوگوں کی حق تلفی کی جائے اور ان کی عزتیں خراب کی جائیں ۔اس کو جھوٹی شہادت کہتے ہیں اور یہ جھوٹی گواہی گناہ میں شرک کے برابر ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ جھوٹی گواہی خدا ئے تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ آپ نے یہ بات (یکے بعد دیگرے ) تین مرتبہ فرمائی پھر آپ نے ثبوت میں یہ آیت پڑھی ’’بچو بت پرستی کی نجاست سے اور بچو جھوٹ بولنے (اور جھوٹی گواہی) سے‘ اللہ کی توحید پر ثابت رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘
جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے ۔ترمذی شریف میں ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرام] سے فرمایا کہ کیامیں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام] نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول! فرمایا کہ شرک او ر ماں باپ کی نافرمانی ؛راوی کا بیان ہے کہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتاً اٹھ بیٹھے اور کہا جھوٹی گواہی یا جھوٹی بات اور برابر یہی کہتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کاش!آپ خاموش ہو جاتے (تاکہ باربار کہنے میں آ پ کو تکلیف نہ ہو۔)
بغیر ضرورت کے قسم نہیں کھانی چاہیے‘ اگر خاص ضرورت پیش آ جائے توسچی قسم کھائی جائے۔ جھوٹی قسم ہر گز نہ کھائے۔ کیونکہ قسم میں خدا کو گواہ بنایا جاتا ہے تاکہ مخاطب کو یقین ہو جائے‘ اس لئے سچے معاملے میں خدا کو گواہ بنانا درست ہے ۔جھوٹے معاملے میں خدا کو ہر گز گواہ نہ بنایا جائے ۔جھوٹی قسم کھا کر جھوٹے معاملے میں خدا کو گوا ہ بنانا سنگین جرم ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل میں ارشاد فرمایا: ’’اور قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑ ڈالو اور تم نے اپنے اوپر خدا کو ضامن بنایا ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو جانتا ہے۔ اور اُس عورت کی طرح مت بنو جس نے اپنے کاتے ہوئے سوت کو محنت کرنے کے بعد توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالاـ؛تم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کا بہانہ بناتے ہو کہ ایک فریق دوسرے فریق سے بڑھ چڑھ کر ہو۔‘‘
خدا کا نام لے کر معاہدہ کرنا اور اس کو توڑ ڈالنا خدا کے مقدس نام کی تحقیرکرنا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جس بات پر کسی نے قسم کھائی اس پر اس نے گویا خدا کو ضامن ٹھہرایا ۔اس لئے قسم توڑ ڈالنا ایسا ہی حماقت کا کام ہے جیسا کہ عرب کی ایک بے وقوف عورت کا تھا جو سوت کات کات کر کھو دیتی یا ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ۔جھوٹی قسم کھا کر کسی دوسرے کے مال پر دعویٰ کرنا خدا کے نام پر جھوٹ بولنا ہے اور یہ ایک کی بجائے دو گناہوں کا مجموعہ ہے یعنی غضب اور جھوٹ اور وہ بھی خدا کے پاک اور مقدس نام پر۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’بے شک جو لوگ خدا کے اقرار اور اپنی قسموں پر (دنیاکے) تھوڑے مال کی تجارت کرتے ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ؛نہ ہی اللہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا قیا مت کے روز اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ‘‘۔(آل عمران)
اس آیت کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپؐ نے تین دفعہ فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف خدا قیامت کے دن نظرکرم نہیں فرمائے گا‘ نہ ہی ان کو پاک کرے گا‘ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اپنا لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر رکھتے ہیں (کیونکہ یہ غرور کی علامت ہے ) دوسرا وہ جو احسان جتلاتا ہے‘ تیسرا وہ جو جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال بیچتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کے حق کو جھوٹی قسم کھا کر لینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو واجب کرے گا ۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اگرچہ وہ معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ وہ پیلو درخت کی ڈالی ہی کیوں نہ ہو ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس شخص سے جھوٹی قسم کہلوائی جائے اور وہ جھوٹی قسم کھائے تو وہ اپنا چہرہ لے کر دوزخ میں ٹھکانا پائے گا ۔چہرہ کی خصوصیت شاید اس لئے ہے کہ اس نے انسانی عزت وآبرو کے خلاف کام کیا اور بڑی ڈھٹائی دکھائی جس کا اثر چہرہ پر نمایا ں ہو گا ۔عموماً تاجر اور سوداگر چیزوں کی قیمت اور مال کی اصل حقیقت بتانے میں جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھا تے ہیںاس لئے خاص طورسے رسول اللہؐ نے انہیں اس سے بچنے کی ہدایت کی۔ فرمایا کہ جھوٹی قسم کھا کر مال تو بک جاتا ہے لیکن اس میں برکت نہیں رہتی۔اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹ اور جھوٹی قسم سے محفوظ رکھے اور ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔آمین!