قومی اقتصادی کونسل نے وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں یکم جولائی سے دکانیں اور کاروباری مراکز رات آٹھ بجے سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ گرمیوں میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی جناب احسن اقبال نے اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ موسمِ گرما میں بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ توانائی کی بچت سے ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ حسبِ توقع اس فیصلے پر تاجروں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ تاجروں کا مئوقف ہے کہ خریداری کا اصل وقت ہی رات آٹھ بجے سے گیارہ بجے کے درمیان ہوتا ہے۔ گرمی کے موسم میں دن کے وقت خریدار بہت کم باہر نکلتے ہیں۔
دیکھا جائے تو دکانیں اور مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے کی ناکام پریکٹس پہلے بھی کئی بار ہو چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہے مگر اس پر عمل درآمد ہماری حرکات کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ جاپان اور چین جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی رات گیارہ بجے تک مارکیٹیں کھولنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہیں۔ یورپ اور انگلینڈ میں بھی ایسا کوئی رواج نہیں ہے۔ صرف ہم ہیں جو اخلاقی روایات و اقدار اور قانون کی خلاف ورزی کر کے دلی اور ذہنی تسکین حاصل کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔
ایک آدمی کی بیوی تیز رفتار دریا کی لہروں کی نذر ہو کر ڈوب گئی۔ اس آدمی نے یہ دیکھا تو تیزی سے اس سمت میں دوڑنا شروع کر دیا جدھر سے پانی کا بہائو آ رہا تھا۔ اس کے ایک دوست نے روکا اور کہنے لگا ’’بے وقوف آدمی! حواس باختگی میں یہ بھی بھول گئے ہو کہ پانی کا بہائو کس طرف ہے؟۔ دوسری طرف دوڑ کر جائو‘‘۔ وہ آدمی بھاگتے بھاگتے بولا ’’میں بے وقوف نہیں ہوں بلکہ اس کے مزاج سے اچھی طرف واقف ہوں۔ ساری زندگی اس نے ہر کام الٹا ہی کیا ہے۔ اب بھی وہ الٹی سمت سے ہی نکلے گی‘‘
بظاہر تو یہ ایک لطیفہ ہے مگر درحقیقت ہمارے قومی مزاج کا عکاس بھی ہے۔ غور کرنے پر روزمرہ زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں آپ کو اپنے ارد گرد ہی نظر آ جائیں گی۔ نوجوانوں کو پتا ہے کہ ون ویلنگ جان لیوا ہے مگر وہ آپ کو یہ خطرناک ایڈونچر کرتے نظر آئیں گے۔ پتنگ اڑانے والی دھاتی ڈور کئی زندگیاں نگل گئی ہے مگر اس کا استعمال جاری ہے۔ قطار میں لگ کر سکون کے ساتھ اپنی باری آنے کا انتظار کرنے کی بجائے دھکم پیل ہم سب کا وطیرہ بن چکا ہے۔ جان بوجھ کر غلط لین میں گاڑی چلانا اور ٹریفک کے قوانین و اشاروں کی خلاف ورزی کرنا ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ راہ چلتے ہوئے اگر کہیں کوئی کتا سویا نظر آجائے تو اسے لات یا پتھر مارنا گویاہمارا قومی فریضہ شمار ہوتا ہے۔ بجلی چوری کرنا اور گیس لائن میں کمپریسر لگا کر گیس کا پریشر بڑھانا ہمارا مرغوب کام ہے۔ رات کو ایک دو بجے سونا اور صبح گیارہ بجے اٹھنا ہم میں سے بہت سوں کی عادت بن چکی ہے۔ ہم اتنے چکنے گھڑے ہیں کہ ہر طرح کی نصیحت ہمارے اوپر سے پھسل جاتی ہے۔ اسی لئے ہم اپنی اور ملک کی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو مذہبی، مسلکی، سیاسی اور طبقاتی تقسیم کا بری طرح شکار ہو چکی ہے۔ دیکھا جائے تو ہم ایک بکھرا ہوا ہجوم ہیں جس کے گرد ملکی سرحدوں کی حدبندی کر دی گئی ہے۔ قوم والی کوئی بات ہم میں رہی ہی نہیں۔
پاکستان میں گرمی کے موسم میں دن بہت لمبے ہوتے ہیں۔ صبح پانچ بجے سے رات آٹھ بجے تک پندرہ گھنٹے بنتے ہیں۔ یہ بہت لمبا پریڈ ہے۔ گرمی کے موسم میں عام طور پر دفاتر بھی چار سے پانچ بجے تک بند ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی تین چار گھنٹے خریداری کے لئے بچ جاتے ہیں لیکن اس بات کا شعور کون دے؟ دن گیارہ بجے سو کر اٹھنے والوں کو کون بتائے کہ آپ نے آدھا دن سو کر سورج کی روشنی سے محرومی میں گزار دیا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ سورج کی روشنی سے جس قدر ممکن ہو سکے استفادہ کرتے ہیں، ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ہم سورج کی روشنی میں سوتے ہیں اور مصنوعی روشنیوں میں جاگتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے لحاظ سے دیکھیں تو رات گیارہ سے بارہ بجے والا پروگرام بھی پرائم ٹائم میں شمار ہوتا ہے۔ ایسے میں حکومت نے اگر رات آٹھ بجے دکانیں، مارکیٹیں اور شادی ہالز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس فیصلے کو کون مانے گا؟اس فیصلے پر عمل کروانے کے لئے پہلے اس قوم کا مزاج بدلنا ہو گا۔ جلدی سونے اور جلدی جاگنے کا شعور پیدا کرنا ہو گا اور یہ شعور پیدا کرنے کے لئے ایک قومی مہم چلانی ہو گی۔ ٹی وی چینلز، اخبارات اور جرائد میں تشہیر کرنا ہو گی۔ یہ تشہیر کمرشل اشتہارات کی مد میں نہیں، قومی فریضہ سمجھتے ہوئے کرنا ہو گی۔ رات 9 بجے کے بعد بلاوجہ گھر سے نہ نکلنے کے کلچر کو اپنانا ہو گا۔ حضور! پہلے قومی مزاج بنائیں۔ پھر اپنے لوگوں سے قومی سوچ اور رویّے کی توقع رکھیں۔
35 فیصد بجلی لائن لاسز اور چوری کی نذر ہو جاتی ہے۔ اس مد میں قومی خزانے کو سالانہ 125 ارب روپے نقصان پہنچ رہا ہے۔ بجلی کی سپلائی میں بہتری کے اقدامات نہیں کئے گئے۔ جب سسٹم پر زیادہ دبائو پڑتا ہے تو پورا سسٹم ہی بیٹھ جاتا ہے۔ گزشتہ سال اسی وجہ سے دو مرتبہ پورے ملک میں بجلی کا بڑا بریک ڈائون ہو چکا ہے۔ایک اور بڑا بوجھ ریکومنڈڈ مفت بر ہیں جنہیں حکومت نے مفت بجلی استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ مالِ مفت دستیاب ہوتا ہے تو اسے بے رحمی سے خرچ کیا جاتا ہے۔ جیب سے بل ادا ہوں گے تو بجلی کے استعمال میں کمی کے ساتھ ساتھ محکمہ کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس رعایت کو حاصل کرنے والے واپڈا ملازمین، ایم پی ایز، ایم این ایز، ججز اور سرکاری افسران تک کسے کو بھی مفت بجلی کی سہولت نہ دی جائے۔ سب تنخواہ لیتے ہیں۔اس میں سے بل ادا کریں۔گھریلو صارفین اس وقت 35 سے 40 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو آگے 50 روپے فی یونٹ تک جا سکتی ہے۔ سرکاری عمارتوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا منصوبہ سست روی سے جاری ہے۔ اسے تیز کیا جاناچاہئے۔سرکاری دفاتر سے ایئر کنڈیشنر فوری طور پر اتروا دیئے جائیں کہ ہم اس وقت معاشی جنگ لڑ رہے ہیں اور حالتِ جنگ میں اس قسم کی عیاشیاں قابلِ برداشت نہیں ہوا کرتیں۔
کم بجلی استعمال کرنے والی مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے یہ مصنوعات بنانے والی فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالکان کی مدد سے کوئی ایسی سکیم شروع کی جائے جس کے تحت وہ لوگ زیادہ بجلی استعمال کرنے والی پرانی مصنوعات کو معقول قیمت پر خرید کر اس کے بدلے نئی چیزیں یعنی پنکھے، ایئر کنڈیشنرز، ریفریجریٹرز، مدھانیاں، استریاں، واشنگ مشینیں اور گیزر وغیرہ تبدیل کر دیں۔ توانائی کی بچت کے لئے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ رات آٹھ بجے کاروبار بند کروانا مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔