الیکشن اور شادی سے پہلے کی توقعات بعد میں بہت کم ہی پوری ہوتی ہیں۔عموماً الیکشن کے بعد عوام ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے، مگرآزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی نمائندے ہاتھ اور پیٹ دونوں ملتے نظرآرہے ہیں۔بلدیاتی نمائندوں کا سیاسی سیارہ گردش کے بجائے چکرا گیا ہے انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی اس کا محور کہاں ہے۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی سیاسی صورتحال نے ان کی دیہاڑی لگنے کے امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔ رات کو آپ پی ٹی آئی کے کارکن کے طور پر سوتے ہیں صبح آنکھ کھلنے پر پتہ چلتا آپ پی ڈی ایم کے کارکن بن چکے ہیں۔مقامی نمائندوں کی حالت قابل رحم ہے،نا تو وہ کسی کی کال سن سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کی کال سنتا ہے۔جیب میں کرایہ نہیں، سکیمیں لینے کا وقت آیا نہیں،پارٹی لیڈر الیکشن کے بعد حلقے میں آیا نہیں۔صبح چھڑی ہاتھ میں پکڑتے، رومال کندھے پر ڈالتے بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ادھار کی چائے،سگریٹ اور نسوار لیتے ہیں اور للچاتی نظروں سے کسی شکار کی تلاش میں رہتے۔بازار والے انہیں کونسلر صاحب کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔رہی سہی کسر پڑھے لکھے نوجوانوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے نکال دی ہے۔مرتے کیا نہ کرتے کسی سے چکرفراڈ کرکے پیسے ہتھیائے اور کسی جلسے جلوس تک پہنچنے کے لیے دوڑ لگادی۔چلیں اگر اور کچھ نہیں چند دن نعروں کے بدلے مفت کی روٹی تو ملے گی ،ساتھ ہی پھیری والے سے کالے شیشے والی سستی عینک لیکر لگائی اور پارٹی لیڈر تک پہنچتے ہیں ۔سیلفی لیکر سوشل میڈیا پر چڑھا دی چاہے بعد میں کالی عینک کے ساتھ منہ بھی کالا کیوں نا ہوجائے۔بلدیاتی نمائندوں کی یہ بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت،بنا اختیارات و بجٹ کے ذمہ دار بھی یہ خودہیں۔ان میں سے اکثر کو اپنے گھروالوں نے بھی ووٹ نہیں دیے، بس یہ چاپلوسی،جی حضوری،جوتے پالش،سرسر،سہولت کاری،درباری بازی گری اور دیگررسیوں پر اچھلتے کودتے پارٹی سربراہ کی چمچہ گیری کے سبب منتخب ہوگئے ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر عوامی نمائندے ہیں باقی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے سیاسی مرید ہیں۔ناشکری کی انتہا کا یہ عالم ہے جنہوں نے انہیں ووٹ دیکر کامیاب کرایا ان کی کوئی فکر نہیں مگر پارٹی پروگرام کے لیے بھاگے بھاگے جاتے ہیں۔اہل علاقہ اگر کسی مسئلے کے حل کے لیے بات کریں تو اختیارات،بجٹ،پارٹی ایم ایل اے کے پاس وزارت نا ہونا وغیرہ کے قصے سناتے اور موقعہ ملتے ہی دم دبا کر رفوچکر ہوجاتےہیں۔جب پارٹی سربراہ آجائے تو بجائے علاقائی مسائل اجاگر کرنے کے یہ مدح سرائی میں مگن ہوجاتے۔انہیں عوام کے بجائے پارٹی سربراہ پر یقین ہے ۔یہ سمجھتے ہیں ان کی کامیابی عوامی ووٹ کے بجائے پارٹی
ٹکٹ کی وجہ سے ہے۔اکثریت پارٹی سربراہ کے سامنے پائوں کے بل بیٹھنے والے ہیں اور ان میں عوامی مسائل پر بات کرنے کا دم خم نہیں ۔سوائے گنتی کے چند افراد کے کسی کو یہ بھی نہیں معلوم اس کے اختیارات کیا ہیں بجٹ کتنا ملنا کہاں سے کونسا کام کروانا کس محکمے کا کیا کردار ہے وغیرہ وغیرہ۔حتٰی کے بعض شگوفوں کو تو کونسلر کے معنی تک نہیں آتے نا ان کا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات نہیں، کھانے کو آٹا نہیں، پینے کو پانی نہیں،سکولوں میں سٹاف نہیں،چلنے کو راستے نہیں مگر انہیں کسی عوامی کام سے کوئی سروکار نہیں ، یہ تو بس اپنی دیہاڑی کے چکر میں رہتے ہیں۔ہمارے ملک میں سیاست ایک کاروبار ہے یہاں جو بھی آتا ہے کمانے اور کھانے کے لیے آتا ہے۔پارٹی ایم ایل اے ان کے ساتھ ساس والا سلوک کرتا ہے اگر یوں کہا جائے ان کا سیاسی ساس بہو والا رشتہ ہے تو بےجانہ ہوگا۔جیتنے والوں کا یہ حال ہے ہارنے والوں کے دکھ والم کا اندازہ خودکرلیں ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ہارنے والے حسب روایت اڑان بھر چکے ہیں اور جیتنے والوں کی حالت اس بندر کی طرح ہے جو اپنی ہی دم پھنسا بیٹھتا ہے۔کہیں کہیں کونسلرز کی حرکت نظر آتی ہے وہ بھی بس اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہ ہم بھی کونسلر ہیں۔کھچڑی حکومت میں کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی کس کی حکومت ہے اور کس کی نہیں۔جس پارٹی کی پہلے حکومت تھی اس کے نمائندے جیتے اب نا تو پارٹی رہی اور نا امیدیں ،بلدیاتی نمائندے ناتوہنسنے کے قابل ہیں اور ناہی رو سکتے ہیں۔جہاں سے جس پارٹی کے امیدوار جیتے وہاں ایم ایل اے کے پاس وزارت نہیں اور جہاں پہ وزارت ہے وہاں سے امیدوار نہیں جیتے۔اب عوام نمائندوں کے پاس مسائل کے حل کے لیے جانے کے بجائے اپنے آپ کو لطف اندوز کررہے ہیں ایسے کٹھ پتلی نمائندے بندری کے کرتب سے زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں۔ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں، کوئی ساکھ نہیں، کوئی نظریہ نہیں، کوئی اپروچ نہیں، کوئی معلومات نہیں۔ یہ توعوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے پیڈ اور مہر تک پارٹی سربراہ کی مرضی و منشاء کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے۔ سب سابقہ سکیم خور ہیں جب کبھی عوامی مسئلے پر غلطی سےبات کرنے کا خیال آجائے تو اس کی سابقہ سکیموں کی تفصیل یادکروائی جاتی ہے اور اگر پھر بھی کونسلری کا جوش نا جائے تو پارٹی کا پروپیگنڈہ ونگ اس کے خلاف متحرک ہوجاتا ہے۔ایسے بھی ڈسٹرکٹ کونسلرز ہیں جو عرصہ دراز سے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے بدنام ہیں مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں وہ بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔اس ساری سیاسی نوراکشتی میں عوام کے پانچ سال ضائع ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔وادی نیلم کا تو باواآدم ہی نرالا ہے تین تین ایم ایل اے اور تھوک کے حساب سے مشیران کے باوجود ضلع نیلم مسائلستان بنا ہوا ہے۔آزادکشمیرمیں ایم ایل اے کی نسبت ایک نائی،موچی اور قصائی مسائل سے زیادہ آشنا ہے ۔ ایم ایل اے سکیموں سےعوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو ہضم کرتا ہے۔ سیاستدانوں کا پیٹ نہیں بھرتا جنگل کھا گئے،دریا پی گئے، معدنیات ہڑپ،جڑی بوٹیاں شڑپ،سکول کالج اور ہسپتال گڑپ اور عوام تڑپ تڑپ۔