9مئی2023کے روز ہونے والے پُر تشدد ،واقعات کو ابھی تک ڈسکس کیا جا رہا ہے ۔ظاہر ہے جو واقعات وقوع پزیر ہوئے وہ کوئی معمولی نہ تھے۔اس دن کو ہمیشہ یوم سیاہ کے طور پہ بھی یاد رکھا جائے گا۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان اگر صبح کو کوئی بیان دیتے تھے تو شام کو ایک نیا بیان سامنے آجاتا تھا اس پہ ایک کالم بھی میں نے لکھا تھا کنگ آف یو ٹرن (king of u turn)۔پہلے کیا ہم غلام ہیں اور پھر امریکہ سے مدد مانگنا تو کبھی انٹرنیشنل میڈیا میں اس بات کو اُٹھانا کہ ہماری خواتین کے ساتھ دوران حراست جنسی زیادتی کی گئی جس کی تردید کے لیے آئی جی پنجاب نے پریس کانفرنس کی۔
پہلے کہانی ایپسلوٹلی ناٹ ،پھرسائفر سے شروع ہوئی،پھر کیا ہم غلام ہیں کے بعد پھر امریکی رکن کانگرس سے آڈیو لیک اور اب بات پہنچی میری مدد کرو۔ایک سابق وزیر اعظم کی ان تمام حرکتوں کے بعد کیا بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کی ساکھ خراب نہیں ہوگی؟میری نظر میں تو ایسا عمل بلکل درست نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے بہت سے ایسے کارکن جو امپورٹ کیے اور اہم عہدوں پہ فائز کیے گئے کچھ معاون خصوصی بھی رہے جب ان سب کو محسوس ہوا کہ پی ٹی آئی پوری طرح شکنجے میں آگئی تو انہوں نے وقت سے پہلے ہی دوڑ لگا دی اور لندن جا بیٹھے۔کچھ لوگ اب میڈیا چینلز پہ آکے کی گئی کرپشن اور مختلف کہانیاں اورمیڈیا ٹاک کر رہے ہیں ۔جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے چھوڑ کے بھاگتے ہیں۔اب صرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اقتدار کے بھی مزے لیے ان کی پانچوں انگلیاں بھی گھی میں تر تھیں مگر اب موقع پا کر سب اتھلیٹس ثابت ہوئے سب نے پریس کانفرنس کرکے اپنے کپڑوں کا بھاڑا اور بے فکر ہو کر تکیے کے نیچے بازو رکھ کے سو گئے۔اب یہاں پہ دو باتیں کہنا چاہوں گی کہ یہ اگر احتساب کا عمل ہی اگر شروع ہوا ہے تو اسے نہ رُکنے والا بنایا جائے اور سب کے لیے یکساں احتساب ہو خواہ وہ پی ٹی آئی کا ہے پی پی پی کا یا پھر ن لیگ کا اس روایت کو اگر یہی سے قائم کر لیتے ہیں تو مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔؎دوسری اہم بات جتنے لوگوں نے پریس کانفرنس کرکے خود کو لاتعلق ظاہر کیا ہے اُنہوں نے پہلے کیوں نہیں راز کھولے؟یا وہ اپنے اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کو شیلٹر دے رہے تھے۔پہلے ہی وہ ہر جماعت میں رہ چُکے ہیںجہاں آنے والے وقت میں اقتدار ملتا دکھائی دیتا ہے یہ سب لوگ ادھر ڈیرے لگا لیتے ہیں۔ابھی کذشتہ روز میں فردوس عاشق اعوان کی پریس کانفرنس سُن رہی تھی جس میں وہ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ اور عمران خان کی خامیاں گنوا رہی تھیں۔یہ وہ خاتون سیاستدان ہے کہ جب ان کو وزارت ملی تھی جس سرکاری رہائش میں مقیم تھیں جب وزارت چھوڑنے کے بعد جانے لگیں تو وہاں کے پردے ،فانوس،تک اُتار لیے کہ انہیں پسند آگئے تھے حتی کہ جس فوٹو فریم میں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی تھی اُس میں سے بھی تصویر نکال کے فریم لے لیا کہ یہ فریم بہت خوبصورت ہے میں اپنی تصویر لگائوں گی اس کے بعد ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں دوہرا نظام کبھی ختم نہیں ہو سکتا جس میں امیر کو تحفظ اور غریب کا احتساب ،یہی روایت ہی شاید رہے گی۔اب جہانگیر ترین ایک نئی جماعت کے لیے متحرک ہیں۔میں کچھ زیادہ نہیں تھوڑا سا ماضی کی جانب جائونگی یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جن پہ مسلم لیگ (ن) کے رکن حنیف عباسی نے تین الزامات لگائے جن میں سے ایک الزام کی مد میں انہیں نااہل قرار دیا۔یہی ہمارے ملک کا دستور ہے اگر پی ٹی آئی کے دور میں اُنہوں نے کو کسر نہیں چھوڑی تو اس نئی جماعت میں شامل ہوکر بھی اپنی فطرت نہیں بدلیں گے۔آج پھر سے وہی ایک جماعت کی تشکیل دے رہے ہیں سونے پہ سہاگہ یہ ہوگا کہ اس جماعت میں اُن بھگوڑوں میں سے بہت سے آرام سے سیٹل ہوجائیں گے اور بہت سے لوگوں کے مذاکرات اب تک ہو بھی چُکے ہیں۔میں یہاں پہ بس اتنا کہنا چاہوں گی وہ لوگ جو پریس کانفرنس کرکے خود کو بری الزمہ کرتے ہوئے اس نئی جماعت میں جا رہے ہیں اُن کا سب سے پہلے سخت احتساب کیا جائے ،دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جہانگیر ترین اپنی جماعت میں خصوصی طور پہ اُن قابل خواتین کو جگہ دیں جو پی ٹی آئی نےبُری طرح کارنر کی تھیں ۔