بھارت میں اقلیتوں پر زمین تنگ کیوںـ؟
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کرے جن سے متعلق مخصوص خدشات پائے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں کی حکومتیں ایک منظم طریقے سے مذہبی آزادیوں کو پامال کرتی ہیں۔ اس فہرست میں جو ملک شامل ہوتے ہیں ان پر پھر معاشی پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ امریکی کمیشن کی طرف سے بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ تین سال قبل بھی کیا گیا تھا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت کے بارے میں یہ تاثر پہلی بار پیدا نہیں ہوا کہ وہ مسلسل مذہبی آزادیوں کو پامال کررہا ہے۔ یوں یہ صورتحال امریکا سمیت دنیا کے تمام اہم ممالک اور ہر بین الاقوامی ادارے کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کمیشن کے ارکان کا تقرر صدر اور کانگریس میں موجود پارٹیوں کے رہنما کرتے ہیں۔ کمیشن کا کام دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کا جائزہ لینا ہے۔ کمیشن نے حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے چین، ایران، میانمار، پاکستان، روس اور سعودی عرب سے متعلق اقدامات کی توثیق کی اور سفارش کی کہ محکمہ خارجہ بھارت، نائجیریا اور ویتنام سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی اس فہرست میں شامل کرے۔ کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر تشدد اور ان کی املاک کی تباہی کی جانب اشارہ کیا گیا اور مودی کی ہندو قوم پرست بی جے پی کے ارکان کے تبصروں اور سوشل میڈیا پوسٹس کے لنکس دیے گئے۔ کمیشن نے کہا کہ امتیازی قوانین کے مسلسل نفاذ کی وجہ سے متشدد ہجوم اور ہندو شدت پسندوں کی جانب سے تشدد بڑے پیمانے پر پروان چڑھا ہے اور ان انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔امریکہ کا یہ مذکورہ کمیشن بھارتی حکومت کے جن اقدامات کی طرف اشارہ کررہا ہے طاقتور ممالک اور ادارے ان سے پہلے بھی واقف ہیں تاہم اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کارروائی بوجوہ نہیں کی جارہی۔ بہت سے ممالک اور ادارے اپنے ذرائع کی مدد سے ہر سال ایسی رپورٹیں تیار کرتے ہیں جن سے انھیں پتا چلتا رہتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو کن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور سلسلے میں حکومت کیا کردار ادار کررہی ہے لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی پامالی پر صرف جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھی جو کچھ کیا جارہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور پاکستان بار بار بین الاقوامی برادری کی توجہ اس طرف دلاتا رہتا ہے لیکن اس حوالے سے بھی عالمی ضمیر خوابیدہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ مذمتی بیانات جاری کر کے بہت سے ممالک اپنے عوام کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی یہ مطالبہ پہلی بار نہیں کیا بلکہ وہ گزشتہ چار برس سے لگاتار یہی سفارش کررہا ہے ور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک بدستور خراب ہوتا جا رہا ہے۔
نریندر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں تب سے مسلم کمیونٹی اور دیگر اقلیتوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ تمام اقلیتیں مسلسل ہندو انتہا پسندوں او رمودی حکومت کے مظالم کے نشانے پر ہے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے انتہا پسندی کے واقعات میں ہونے والا اضافہ یہ بتاتا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جارہی۔ اسی صورتحال کو بنیاد بنا کر امریکی حکومت کے ایک کمیشن نے بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی 2020اور اب حالیہ رپورٹ پوری دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر عالمی اداروں کو اب بھارت کی اس دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور بالخصوص بھارت میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
امریکی جریدے کی چشم کشارپورٹ
امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان مہنگائی میں اضافے کی شرح میں سری لنکا سے بدستور آگے ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذا بھی سری لنکا سے مہنگی ہے۔ سری لنکا میں اپریل کے دوران مہنگائی کی شرح 35 فیصد رہی ہے۔ ملک میں گذشتہ ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 36.42 فیصد رہی جو 1964ء کے بعد گرانی کی بلندترین شرح ہے۔دوسری جانب وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق اپریل میں مہنگائی میں 2.41 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جولائی تا اپریل مہنگائی کی اوسط شرح 28.23 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایک سال میں سگریٹ 159.89 فیصد، چائے 108.76 اور آٹا 106.07 فیصد مہنگا ہوا۔ گندم 103.52 فیصد اور انڈے 100 فیصد سے زائد، چاول 87 اور دال مونگ 57 فیصد سے زائد مہنگی ہوئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق اپریل میں شہروں میں مہنگائی میں 2 فیصد اضافہ ہوا اور اس دوران دیہاتوں میں مہنگائی میں 2.97 فیصد اضافہ ہوا۔ اپریل میں آلو 26.88 فیصد، آٹا 25.8 فیصد، ٹماٹر 19.3 اور چینی 18.8 فیصد مہنگی ہوئی۔ ایک ماہ میں پھل 10.1، انڈے 9.8 ، سبزیاں 9.3 ، گندم 4.47 فیصد مہنگی ہوئی۔ اپریل میں ٹیکسٹ بک 19.3، سٹیشنری 10.15 فیصد مہنگی ہوئی۔ سالانہ بنیادوں پر سگریٹس 159.8، چائے 108.76 اور آٹا 106.7 فیصد مہنگا ہوا۔ ایک سال میں گندم 103.52 ، انڈے 100.8 فیصد مہنگے ہوگئے ایک سال میں گاڑیوں کے پرزے 42.5 ، گاڑیاں 41.5 اور گھریلو سامان 40.94 فیصد مہنگا ہوا۔ سالانہ بنیادوں پر تعمیراتی سامان 37.23 ، شادی ہال چارجز 32.8 فیصد مہنگے ہوئے۔ اسی طرح ایک سال میں بجلی چارجز 30.84 فیصد بڑھ گئے۔
آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کو عملاً گروی رکھ دیاگیا ہے جس کا خمیازہ صرف اور صرف غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت جب بھی عوامی ریلیف کے پیکیج کا اعلان کرتی ہے‘ آئی ایم ایف اس پر اعتراض اٹھا کر اسے مسترد کر دیتا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت کے پاس چند ماہ باقی رہ گئے ہیں‘ بالآخر اسے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانا ہوگا۔ اسکی اب تک کی کارکردگی سے تو عوام نالاں نظر آتے ہیںاس لئے بہتر ہے کہ حکومت اپنی اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کا سوچے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے خلاصی کا کوئی موثر راستہ نکالا جائے تاکہ ہم اپنی خودمختاری کے تحت عوامی اور ملکی مفاد کے فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں۔ حکومت اگر اب بھی مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھے گی تو پھر کب باندھے گی؟
سیلاب سے بچائو کے لیے اقدامات
حالیہ بارشوں سے ملک کے مختلف مقامات پرکئی افراد جان کی بازی ہار گئے۔ مویشیوں کا ایک ریوڑ سیلابی ریلے میں بہہ گیا۔ سبی ، جیکب آباد، ہرنائی پنجاب شاہراہیں مختلف مقامات پر ٹریفک کے لئے بند ہیں۔کیچ ، دکی،بارکھان، آواریان، خضدار، سوراب، زیارت، ہرنائی، ڑوب، لورالائی میں سیلاب کی اطلاعات ہیں۔ موسمی اثرات کے باعث گزشتہ چند روز کے دوران وقفے وقفے سے ہلکی ، درمیانی اور تیز بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بارش کا موجودہ اسپیل مغربی موسم کی لہر کا نتیجہ ہے جس کی محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ مئی کے پہلے ہفتے میں ملک بھر میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہوں گی۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان شدید متاثر ہے اورمختلف علاقوں میں شدید طوفانی بارش اور طغیانی نے تباہی مچائی۔متعددعمارتوں اور فصلوں کونقصان پہنچا۔11پی ڈی ایم کی رپورٹ کے مطابق آئندہ 48 سے 72گھنٹوں کے دوران موسلادھار بارشوں سے موسیٰ خیل، بارکھان اوردیگر علاقوں میں بارشوں سے سیلاب آسکتا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی موسلادھار بارش اور بجلی گرنے کی اطلاعات ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے فوری بارشوں کی صورت حال پر وفاقی اور صوبائی اداروں کو الرٹ،شہریوں کی مدد کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے، جہاں ضرورت ہو عوام کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے،بین الصوبائی شاہراہوں کی مانیٹرنگ، ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کی ہدایات ،عوام سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور حکومتی اداروں سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
وزیر اعظم شہبازشریف کی یہ ہدایات بالکل درست ہیں اور حکومتی اداروں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جن کو موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں اور اسے آنے والے ماہ و سال میں موسلادھاربارشوں، تباہ کن سیلابوں، گرمی کی شدید لہروں اور گلیشئر کے تیزی سے پگھلنے سمیت انتہائی بدلتے موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس لیے متعلقہ اداروں کو کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہیئں۔