کالم

بھارتی نژاد امریکی بزنس مین کی بطور ورلڈبینک چیف تعیناتی

مصطفیٰ کمال پاشا

ہم ”گلوبل ویلیج“ یعنی عالمی پنڈ میں رہ رہے ہیں حدود اور فاصلے سمٹ چکے ہیں انٹرنیٹ اور سیلولر فون کے ذریعے ہم سات براعظموں کے باسی ایک دیہات کی شکل ہیں۔ عالمی پنڈ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا پر، فضا میں اپنی حکمرانی قائم کر دی ہے اس حوالے سے دنیا میں سب سے بڑا نام حجم اور معیار کے اعتبار سے بھی گوگل کا ہے جس کی سربراہی ایک ہندو سندر پہچائی کے ہاتھوں میں ہے یہ شخص گندی بستی میں پیدا ہوا۔ غربت میں تعلیم حاصل کی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر دنیا کی اعلیٰ ترین کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچا۔ یہ دنیا میں سب سے مہنگا ملازم ہے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا ملازم۔ دنیا پر، دنیا کی کمیونیکیشن پر، کاروبار پر، جس کمپنی کی حکمرانی ہے وہ اس کا سربراہ ہے۔
برطانیہ عظمیٰ کا وزیراعظم بھی بھارتی نژاد ہندو ہے وہ بھی گوروں کا اعتماد جیت کر ووٹ لے کر اس عظیم مرتبے تک پہنچا ہے۔ برطانیہ دنیا کی پانچ بڑی طاقتور مملکتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اقوام مغرب میں ہی نہیں بلکہ اقوام شرق و غرب میں اس کا سکہ چلتا ہے اس کی سربراہی بھی ایک ہندو کے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔ تازہ ترین خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ایک بھارتی نژاد امریکی بزنس مین اجے پال سنگھ بنگا کو عالمی بنک کا نیا صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔ عالمی بینک، ہمارے جاری عالمی معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالمی معیشت کی ڈائریکشن طے کرتا ہے۔ عالمی نظام نقد و زر کے نشیب و فراز میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کی سربراہی بھی ایک ہندو کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔
بھارت، ہمارا ازلی دشمن ہے یا یوں کہہ لیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جس کے شر سے بچنے کے لئے ہمیں تازہ دم اور طاقتور فوج رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے ہم گزرے 75سالوں سے صرف ایک ہی ادارے کی تعمیر و ترقی میں لگے رہے ہیں۔ ہم نے اپنی مسلح افواج کو مضبوط اور موثر بنانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا رکھی ہے اسی پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ہم نے ایٹم بم بنا لیا۔ ہم نے سمجھ لیا کہ ہماری فوج ایٹمی صلاحیت کی حامل ہو کر ملک کے دفاع کو ناقبال تسخیر بنا چکی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ ملک کا پاپولر سیاسی لیڈر جو وزیراعظم بھی رہ چکا ہے، کہہ رہا ہے کہ ”باجوہ نے کئی بار کہا کہ ٹینکوں میں تیل نہیں ہے“، عمران خان نے حالیہ انکشاف سے پہلے پاکستان کے معروف صحافی حامد میر ایک خصوصی میٹنگ کے حوالے سے سابقہ سالارِ اعلیٰ کا بیان اخبارات کے ذریعے نشر کر چکے ہیں کہ ”ہم جنگ نہیں کر سکتے“ اس بات کی تائید نسیم زہرا بھی کرچکی ہیں کہ ہاں ایسے ہی بات ہوئی تھی۔
بیان کرنے کا مقصد بتانا ہے کہ ہم گھاس کھانے تک تو آن پہنچے ہیں۔ ہماری شخصی معیشت 45فیصد مہنگائی، ملک گیر بے روزگاری، صفر معاشی نمو اور ایسے ہی دیگر عوامل کے تحت مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے۔ قومی معیشت تجارتی و مالی خسارے کے بوجھ تلے دب چکی ہے عالمی قرضے کا بوجھ فی الحقیقت جان لیوا ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر قرض خواہ اداروں کے نخرے اٹھاتے اٹھاتے ہم دیوانگی تک جا پہنچے ہیں ایسے تناظر میں چیف کا ”ٹینکوں میں پٹرول نہ ہونے“ اور ”جنگ کے قابل نہ ہونے“ کے بیانات مبنی برحقیقت نظر آتے ہیں۔ہماری داخلی سیاست میں اب ادارہ جاتی جدل بھی شامل ہو چکا ہے۔سیاست پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان جنگ و جدل کا شکار ہے یہ جنگ گزرے 13مہینوں میں اس نہج تک جا پہنچی ہے کہ اس کے خاتمہ بالخیر کے امکانات بھی صفر ہو چکے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹائے بغیر ٹلتے ہوئے نظر نہیں آ رہے ہیں یہ جنگ کسی ایک فریق کی شکست پر ہی اختتام پذیر ہو گی۔دوسری طرف جو صاحبان نوازشریف حکومت کے خاتمے اور نوازشریف کو صفحہ سیاست سے مٹانے میں بھی گھناؤنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ ان کی جنگ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جاری ہے اور صورت حال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب اس جنگ میں فریقین آخری حربہ آزمانے کی پوزیشن تک آن پہنچے ہیں۔ سپریم کورٹ،توہین عدالت کی کارروائی کرکے اپنا حتمی اختیار / ہتھیار استعمال کرتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ دوسری طرف حکومت ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چیف کو برطرف کرنے کا سوچ رہی ہے۔ گویا یہ جنگ بھی کسی ایک فریق کے حتمی خاتمے کے بعد ہی اختتام پذیر ہو گی اور یہ بڑا واضح نظر آ رہا ہے کہ جو فریق پہلے اپنا آخری حربہ آزمائے گا وہی فاتح قرار پائے گا۔
سپریم کورٹ کے اپنے ججوں کے درمیان بھی تفریق اور گروہ بندی واضح طور پر نظرآ رہی ہے۔ 8-7کی تقسیم کھل کھلا کر سامنے آ چکی ہے۔ ایک دھڑے کو چیف جسٹس رہنمائی ہی فراہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود چلا رہے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک،اعلیٰ سے ادنیٰ تک افتراق و انتشار پھیلا ہوا ہے۔ معیشت بیٹھ ہی نہیں چکی ہے بلکہ لیٹی ہوئی ہے اس کی بہتری کی صورت مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی، 23/24کروڑ عوام نہ صرف اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں بلکہ انہیں اپنا حال ہی بدحال نظرآ رہا ہے۔ گزرے ایک سال کے دوران 9لاکھ سے زائد کام کرنے والے،کام کی تلاش میں بیرون ممالک سدھار چکے ہیں اس قدر وسیع پیمانے پر ”ذہانت کا انخلاء“ ملک کے لئے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن آبادی کے لحاظ سے دنیا کی اولین مملکت بن چکا ہے۔ ایک ارب 46 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن چکا ہے۔ دوسری طرف تیزی سے ترقی کرتے کرتے وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا مقام حاصل کر چکا ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ دنیا مشرق ہو یا مغرب، سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ممالک ہوں یا نیم اشتراکی ریاستیں، سب بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی، تجارتی اور ثقافتی روابط موثر بنانے میں معروف ہیں۔ بھارت نے متضاد الفکر و عمل کی اقوام کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ہمارا ازلی دشمن ہم سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نہ صرف آگے بڑھ چکا ہے بلکہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے کہ اب ہمارا اس سے موازنہ ہی ممکن نہیں رہا ہے۔ ہم اپنی ہی نالائقیوں اور کوتاہ بینیوں کے باعث تباہی و بربادی کی منازل طے کرتے ہوئے مکمل تباہی کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ تباہی و بربادی کے سفر میں ہم اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہمیں اب بھارت یا کسی اور دشمن کی ہرگز ضرورت نہیں رہی ہے۔ ہم اپنی ناکامی اور بربادی کا حتمی بندوبست کر چکے ہیں۔ باقی غیب کا علم تو اللہ کے پاس ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: