
بحران بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اختلافات اور تضادات پہلے بھی حدود وقیودپار کر چکے ہیں۔ منظر پر مایوسی، ناامیدی اور شک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اختلافات و تضادات نظری یا فکری نہیں ہیں بلکہ شخصی ہیں، ایسے ہی اختلافات نے ریاست کے ستونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے کوئی اپنی پوزیشن سے سرکنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ عمران خان کی نامزد کردہ ٹیم اور پی ڈی ایم و اتحادی حکومت کے نمائندے مل بیٹھے ہیں لیکن فریقین اپنی اپنی واضح پوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کیا کر لیں گے۔ نتیجہ سامنے ہے مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی دھمکی بھی سامنے آ چکی ہے کہ اگرحل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور فیصلہ بھی۔ گویا تین رکنی متنازعہ بینچ چیف صاحب کی سربراہی میں پارلیمان کے سامنے ڈٹ چکا ہے۔ وہ انتظامیہ، الیکشن کمیشن، وزارت دفاع و وزارت داخلہ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں پہلے لے چکا ہے اب وہ آئین کی خالق، پارلیمان کے حوالے سے بھی کر دیا گیا ہے۔دوسری طرف پارلیمان نے متحد ویک سو ہو کر اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے بلکہ ایک پوزیشن لے لی ہے کہ الیکشن طے کردہ مدت کے بعد آئینی طریقے سے ایک ہی وقت میں منعقد ہوں گے۔ عمران خان کی پی ٹی آئی کے سہوا تمام قومی و علاقائی پارٹیوں کا موقف وضاحت کے ساتھ قوم کے سامنے آ چکا ہے کہ انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوں، تمام صوبائی اسمبلیوں اور مرکز میں انتخابات ایک ہی وقت میں کرائے جاتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ پارلیمان نے ڈٹ کر اپنا موقف بیان کر دیا ہے انہوں نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ماننے سے بھی انکار کر دیا جبکہ بینچ اپنے موقف کا اسیر نظر آ رہا ہے اور جاری بحران سنگین ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حالات کی سنگینی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے مذاکرات کرانے کی کاوشیں خوش آئند ہیں۔ انہوں نے طوفانی دورے کر کے متحارب سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطہ کاری کی ایک مثبت کاوش کی ہے ان کی رابطہ کاری کے نتیجے میں مثبت بیانات کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ قومی سیاست اس قدر گدلا چکی ہے کہ اس کی صفائی کے لئے بڑے پیمانے پر تطہیری عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا نظام واضح ہے کہ اس کی کمزوریاں بھی طشت ازبام ہو چکی ہیں 73 کا آئین ایک متفقہ دستاویز ضرور ہے لیکن یہ نہ کسی ملٹری آمر کو اقتدار پر قبضہ کرنے سے روک سکا ہے اور نہ ہی سیاستدانوں و ججوں کو من مانیاں کرنے میں رکاوٹ بن سکا ہے۔ہمارا موجودہ سیاسی بحران، ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، بڑے بڑے جغادری قانون دان جاری تنازعے میں آئین کی کچھ ایسی تشریحات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دِل چاہتا ہے سادہ سی بات کو کچھ اس انداز میں، اپنے نقطہ نظر سے بیان کرتے وقت ماہرین بھول جاتے ہیں کہ پارلیمان آئین کی خالق ہے اس میں ترمیم کرنے کی مجاز ہے اسے معطل کرنے کا بھی اختیار اس کے پاس موجود ہے پھر آئین کیسے بالادست ہو گیا؟ مخلوق اپنے خالق سے بالا تر کیسے ہو گئی؟ ہاں جو ادارے (سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن وغیرہ) آئین کے تحت قائم کیے گئے ہیں آئین ان پر بالادست ضرور ہے کیونکہ آئین کی حیثیت ان اداروں کے لئے خالق کی ہے۔ سپریم کورٹ کے لئے آئین ضرور بالادست ہے لیکن آئین کی تشریح کا سپریم کورٹ کا حق بھی پارلیمان کے ماتحت ہے سپریم کورٹ کو آئین، تشریح کا حق ضرور دیتا ہے لیکن وہ بھی مشروط ہے۔ سپریم کورٹ کی تشریح، آئین سازوں کے آدرشوں و خیالات کے مطابق ہی کی جا سکتی ہے یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی تنازعہ کی صورت میں سپریم کورٹ آئین کی تشریح کا حق رکھتی ہے لیکن وہ انہی حدود و قیود کے ساتھ جو آئین میں طے کر دی گئی ہیں لیکن یہاں تو سپریم کورٹ کے ان فاضل ججوں نے آئین کی تشریح کرتے کرتے ”آئین کو دوبارہ“ لکھنے کی کوشش کر ڈالی ہے۔
اب کیا ہو گا؟ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بڑا حادثہ ہو گا۔جاری بے اطمینانی میں اضافہ ہو گا۔پارلیمان اپنی پوزیشن واضح کر چکی ہے کہ وہ متنازعہ بینچ اور اس کے فیصلے کو نہیں مانتی،دوسری طرف متنازعہ بینچ بھی ڈٹا ہوا نظر آ رہا ہے وہ اپنی بات یعنی فیصلے پر عملدرآمد کرانے پر تلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سیاست دانوں کے مذاکرات بھی کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنا حق جو بزعم خود اس نے حاصل کر رکھا ہے یعنی ”توہین عدالت کی کارروائی“ ضرور استعمال کرے گی۔یہ اب صرف ٹائم کا ایشو ہے کہ یہ حق کب استعمال کیا جائے گا اور اس دفعہ کس کا سر قلم ہو گا۔ دیکھتے ہیں۔