کالم

بچے من کے سچے

احسان غنی

بچوں کا عالمی دن ہر سال 20نومبر کو منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ نے 20نومبر1989کو کنونشن آف چلڈرن رائٹس (CRC)منظور کیا تھا۔جس کے مطابق ہرسال نومبرمیں عالمی یوم اطفال اس عزم سے منایا جائے گا کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اُن کی فلاح بہبود کے لیے عالمی سطح پرجدوجہد کرنا۔ا س سال عالمی یوم اطفال کا ہے ہرحق بچے کے لیے "کے عنوان (Theme)کے تحت منایاجارہا ہے ۔موسمیاتی تبدیلیاں ،تعلیم، ذہنی نشوونما،غیر انسانی سلوک، نسل پرستی کاخاتمہ ایسے تمام مسائل جس سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اجتماعی کوششوں اور جدوجہد سے ان تمام مسائل کو حل کرکے بچوں کے لیے دنیا کو ایک محفوظ پناہ گاہ بنایا جائے۔بچوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ،نارواسلوک، جسمانی، ذہنی، جذباتی، جنسی تشدد، معاشی اورمعاشرتی ناہموار ی، نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کاباعث بنتے ہیں جس سے بچوں کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ لاوارث، بے سہارا بھکاری، جبری مشقت، منشیات کے عادی ذہنی، جسمانی ،جنسی تشددکاشکاربچے کم عمر خطاکار(قیدی)،اغواء برائے تاوان سکولوں کی ناگفتہ بہ حالت ٹرانسپورٹ کی کمی، حفظان صحت اورکھیلوں کی سہولیات کا فقدان،نابالغ لڑکیوں کی جبراً شادی جہالت اور غربت یہ وہ سب عوامل ہیں جوبچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ظلم وستم ، زیادتی اور استحصال سے بچوںکی مشکلات مسائل میں روزبروز اضافہ ہوتاچلا جارہا ہے۔
خوف، اضطراب، پریشانی، گھبراہٹ اکھڑے رویے،بے چینی ،چڑاچڑا پن، بوریت اور تنہائی میں مبتلا بچے سخت ذہنی کوفت کاشکار ہوتے ہیں۔بچوں سے بے پروائی اور بے اعتنائی برتنا کسی لحاظ سے بھی معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں۔وطن عزیز کے نونہالوں سے پچھلے 75سالوں سے یہ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ہرحکومت چین کی بانسر ی بجاتی ہے۔کہ سب اچھا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔پاکستان میں بچوں کی حالت زار کے اعداد وشمار خوفناک اور ہوشرباہیں۔لاتعداد غیر سرکاری تنظیمیں ،این جی او ،بچوں کے حقوق پر بنی ہوئی ہیں۔لیکن صرف چند ایک کے علاوہ باقی، این جی او کی کارکردگی صفر ہے اور بچے لاوارث دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔کوئی اُن کا پُرسان حال نہیں ۔1990جنیئوا میں منعقد اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان نے کنونشن آف چلڈرن رائٹس(CRC)پر دستخط کیے تھے۔کنونشن آف چلڈرن رائٹس کے چار بنیادی اصول یہ ہیں۔1۔جینے کاحق،2۔صحت مند ماحول میں نشوونما،3۔تحفظ،4۔ بچوں کی شراکت داری۔
کسی ایک حکومت نے بھی بچوں کی فلاح کے لیے کچھ نہیںکیا۔وطن عزیز کی22کروڑآبادی میں سے تقریباً 8کروڑ بچے ہیں۔پاکستان میں 40فیصد بچے غذائی قلت کا شکار:عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق5سال سے کم بیشتربچوں کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں ۔40فیصد بچے غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔5سال سے کم عمر بچوں کے لیے بیت الخلاء کی سہولت اور صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق پیدائش کے پہلے 1000دن بچے کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔اسی دوران بچے کا80فیصد ذہن بنتا ہے۔
منٹین UNICEF کی گزشتہ سال کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ((12.5 ملین سے زائد بچے( بچوںکی آبادی کا تقریباََ 16فیصدہے) چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں ۔ 14-13فیصدبچوں کی عمریں 5سے 17سال کے درمیان میں اور ان میںسے81 فیصدپنجاب میں 80 فیصد سندھ اور 82 فیصد کے پی کے میں کسی نہ کسی تشدد کا شکارہوتے ہیں۔بہت زیادہ جنسی تشدد کاشکارہونے والے 6سے 15سال تک کے بچے (Most Valnerable)جبکہ15سال سے کم عمر بچے(More Valnerable)متاثر ہوتے ہیں۔جنسی تشدد کی وجہ سے بچوں کی ذہنی اخلاقی اورسماجی رویوں میں منفی رحجان ابھرتا ہے اور پھر اکثراوقات انہی رویوں کی بدولت اُن سے غیر اخلاقی کام سرزدہوجاتے ہیں۔جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے ایک طرف سخت قوانین بناکر اُن پرسختی سے عملدرآمد وقت کاتقاضا ہے۔ اس گھنائونے جرم کے مرتکب مجرموں کونشان عبرت بناکہ معصوم بچوں کی زندگیوں کومحفوظ بنایا جاسکے۔ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 10سے12لاکھ اسٹریٹ چلڈرن Street Childrenہیں۔جو سب سے زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ بچے روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو(CPWB)اورمحکمہ سوشل ویلفیئر کے باہمی چپقلش کی وجہ سے چائلڈپروٹیکشن پالیسی ابھی تک نہ بن سکی جس کے باعث صوبہ پنجاب کے بچوں کا مستقبل دائو پر لگاہواہے۔صوبہ سند ھ میں چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی لاوارث بے سہارا بچوں کے تحفظ کے لیے کام کررہی ہے۔حکومت کوفوری طورپرحقوق اطفال کے تحفظ کے لیے ایکThink Thankبناناچاہیے ۔جس میں بچوں کی فلاح وبہبود کے ماہرین شامل ہوںاساتذہ ،ڈاکٹراور چائلڈ پروٹیکشن سپیشلسٹ شامل ہوں۔چائلڈ پروٹیکشنThink Thankکی مشاورت سے تجاویز مرتب ہوں ۔حکومت اُن پرعملدرآمد کویقینی بنائے اُن کی روشنی یں حقوق اطفال سے متعلق پالیسیاں وضع کی جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 25-Aکے تحت بچوں کی معیاری تعلیم کے حصول کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ آرٹیکل11 بچوں سے جبری مشقت لینے کی ممانعت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بچوں کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مہلک خطرات کے ساتھ ساتھ پینے کا صاف پانی صفائی ستھرائی ،صحت اورتعلیم کی کمی یابی جیسے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
بچے ہما را آنے والا کل ہیںان کی بہتر خطوط پر تعلیم تربیت کی جائے انھیں آگے بڑھنے کے مواقع دیئے جائیں تویہی بچے آنے والے کل میں ملک کا نام روشن کریں گے۔اُن کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔مسکراتے، کھیلتے بچے زندگی کی علامت ہیں۔زندگی کا تسلسل بچوں کی بدولت ہے۔ملک میں انتخابات کا ماحول بن رہا ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں حقوق اطفال کو لازمی شامل کرنا چاہیے۔بچوں کو ہرحال میں ترجیح دینا ہو گی۔تاکہ وطن عزیز بچوں کے لیے ایک محفوظ جائے پناہ بن سکے۔ پھر جاکر کہیں ہمارا شمار اقوام عالم میں مہذب اور ترقی یافتہ قوم میں ہوگا۔حقوق اطفال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر بچوں کی وزارت بنائی جائے بچوں کو حقوق کے خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے ایک با اختیار کمیشن تشکیل دیا جائے اس سلسلہ میں محتسب پنجاب (میجرار) اعظم سلیمان نے دفتر محتسب میں حقوق اطفال کمشنر مقرر کیا ہوا ہے جو بہت اچھا اقدام ہے دفتر محتسب پنجاب تحفظ حقوق اطفال کے لیے موثر کردار ادا کر رہا ہے۔محتسب پنجاب کی طرح دیگر اداروں کو بھی حقو ق اطفال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرناہونگے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d