عموما لوگ انٹرنیٹ کے فوائد کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں لیکن اس کے تاریک پہلو ؤں کے حوالے سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ آن لائن خطرہ ایک عالمی رجحان کی حیثیت اختیار کر گیا ہے تاہم پاکستان کے نقطہ نظر سے ہمیں اضافی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جس میں توہین آمیز اور فرقہ وارانہ مواد کو اپ لوڈ کرنا/ پوسٹ کرنا/ یا دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا بھی شامل ہے۔ ایسے حساس موضوعات کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے سوشل میڈیا صارفین (یعنی نوجوان، والدین، اساتذہ وغیرہ) کو اس سے وابستہ نقصانات کے بارے میں مکمل آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی نسلوں کو مزید نقصانات سے بچانے کے لیے بروقت اور مناسب اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ مطلوبہ نتائج کے حصول کے پیش نظر تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔
جہاں ہمارے نوجوان آن لائن دنیا کے خطرات کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں وہیں ان کے والدین/سرپرست بھی آن لائن خطرات، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی کمیونٹی گائیڈ لائنز اور مقامی قوانین (یعنی پیکا، پی پی سی وغیرہ) میں مذکور سزاؤں کے بارے میں بھی پوری طرح سے معلومات نہیں رکھتے۔ والدین اور اساتذہ کو اپنے بچوں /طلبہ کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر جب وہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہوں جو کہ عموما ایسا رویہ بچوں میں بہت زیادہ آن لائن مار دھاڑ والی گیمز کھیلنے سے پیدا ہو تا ہے۔ بعض دفعہ بچے خاموش طبع اور تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور خود کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھنا شروع کر دیتے ہیں اس مرحلے میں بچوں کو ان کے والدین اوراساتذہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً مناسب مشاورت کی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے ایسے مناسب قدامات مطلوب ہیں جیسا کہ بچوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ دینے سے گریز کیا جائے بلکہ انہیں کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت دیں اور وہ بھی ایسی جگہ پر رکھا گیا ہو جہاں وہ سب کی نظروں میں ہو اسی طرح بچوں کے لئے جسمانی سرگرمیوں پر مشتمل کھیلوں کو آن لائن گیمنگ کی سہولیات پر ترجیح دیں۔
سب سے اہم بات والدین کو اپنے بچوں کے لیے وقت نکالنا چاہیے، انہیں بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انھیں آن لائن خطرات کے حوالے سے آگاہی دینی چاہیے۔ اسی طرح بچوں پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے کے بجائے ان کے مسائل تسلی سے سنیں۔ بصورت دیگر، وہ اجنبیوں /آن لائن شکاریوں پر اعتماد تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ ان کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کو بھی سیمینارز/ویبنارز، ورکشاپس وغیرہ کے ذریعے آن لائن خطرات سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیوں کے پیرنٹل کنٹرول سافٹ ویئراور سوشل میڈیا کمپنیوں کے اپنے فیچرز بھی اس حوالے سے سہولت مہیا کرتے ہیں جس کے ذریعے بچوں کو غیر مناسب مواد سے بچایا جا سکتا ہے۔جس کے ذریعے نامناسب مواد/ایپس کو فلٹر، اسکرین کے وقت کو محدود اور آن لائن سرگرمیوں وغیرہ کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ پی ٹی اے کی ویب سائٹ: www.pta.gov.pk پرپرائیویٹ کمپنیوں کے پیرنٹل کنٹرول سافٹ ویئرز کی فہرست رکھی گئی ہے۔جس کو سبسکرائب اور انسٹال کر کے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی رہنمائی کے لیے پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی گائیڈ لائنز کے لنکس/یو آر ایلز (URLs) پر مشتمل ایک فہرست بھی رکھ دی گئی ہے جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواد پوسٹ کرنے یا دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے بارے میں مزید معلومات/ ہدایات موجود ہیں۔
مزید برآں، الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (پی ای سی اے یعنی پیکا ایکٹ) 2016 میں منظور کیا گیا تھا جس کے تحت پی ٹی اے کو انٹرنیٹ/سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد پر کنٹرول کرنے اور ایف آئی اے کو سائبر کرائم سے متعلق امور کی تحقیقات اور قانونی کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ عوام ایسے تمام مواد کے بارے میں پی ٹی اے کوکمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم (سی ایم ایس) https://complaint.pta.gov.pk/ RegisterComplaint.aspx یا پی ٹی اے کی موبائل ایپ کے ذریعے شکایات کا اندراج کرائیں اور سائبر کرائم سے متعلق مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے ایف آئی اے(سائبر کرائم ونگ) کو غیر قانونی مواد کی اطلاع دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ تمام مشہور سوشل میڈیا کمپنیاں اور ان کے سسٹمز پاکستان سے باہر محفوظ HTTPs سائٹس پر ہوسٹ کیے گئے ہیں۔اگرچہ پی ٹی اے کی جانب سے غیر قانونی مواد کو ہٹانے/بلاک کرنے کے لیے موصول ہونے والی شکایات تجزیہ کرنے کے بعد متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھیجی جا تی ہیں۔ مگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز معاملے کے فوری حل کے لیے ہمیشہ شکایت کنندہ کے ساتھ براہ راست رابطے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ شکایت کنندہ سے براہ راست مزید معلومات (اگر ضروری ہوں) کو حاصل کرتے ہوئے شکایت کا ازالہ کیا جائے۔