بجٹ :470ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز
صابن، سرف ،برتن دھونے کے لیکوئیڈ،ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش ، ماؤتھ فریشنر،ڈبے میں بند مصالحہ جات ، گوشت گلانے کے پاؤڈر ،چینی، جام ، جیلی،درآمدی دودھ، مچھلی، گوشت پر18فیصد ٹیکس برقرار رہے گا ایکسپورٹ بڑھائے بغیر گزارا نہیں :علی ٹبا،قرضہ دینےوالے پوچھتے ہیں آپکا پلان کیا ہے؟غیاث خان،لوگ پیسہ باہر لے جارہے:علی حسنین،روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں6ارب ڈالرآئے،پھر واپس چلے گئے:عارف حبیب

سلام آباد،لاہور(سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک ) وفاقی حکومت نے بجٹ 2023-24 کے حوالے سے تجاویز کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے جس کے تحت سال رواں کے ماہ فروری میں منی بجٹ کے ذریعے لگائے گیے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز کو نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ بعض لگژری اشیا پر ٹیکسز کی شرح میں اضافہ میں بھی کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ بجٹ کی تیاری سے متعلق اجلاسوں میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ 170 ارب کے حالیہ منی بجٹ میں روزمرّہ اشیا پر اضافی جی ایس ٹی نئے بجٹ میں بھی برقرار رکھی جائے گی بلکہ درآمدی دودھ، مچھلی، گوشت، جام جیلی اور چائے وغیرہ پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس برقرار رہے گا۔بجٹ تجویزمیں کہا گیا ہے کہ درآمدی دودھ پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد، ڈبے میں بند گوشت اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد،امپورٹڈ چکن اور اس کی دیگر اشیا پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد کیا جائے۔واضح رہے کہ فروری 2023 میں روزمرّہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھ کر 18 فیصد کی گئی تھی، نئے مالی سال کے بجٹ میں چائے، چینی، جام اور جیلی پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد پر برقرار رکھنے کا کہا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق مطابق صابن، سرف اور برتن دھونے کے لیکوئیڈ پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھے جانے کا امکان ہے، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور ماؤتھ فریشنر پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رہے گا جب کہ ڈبے میں بند مصالحہ جات اور گوشت گلانے کے پاؤڈر پر سیلز ٹیکس 18 فیصد برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر منی بجٹ پیش کیا تھا جس میں اشیائے ضروریہ اور کچھ لگژری آئٹمز پر جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ کرکے 170 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی طور پر 470 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کی بھی تجویز دی گئی ہے جب کہ ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ٹیکسز جمع کرنے کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں متعارف کرائی جائیں گی۔علاوہ ازیں پاکستانی معیشت اور آنیوالے بجٹ کے بارے میں مختلف معاشی ماہرین نے اپنی تجاویز پیش کی ہیں،لکی سیمنٹ کے چیف ایگزیکٹو علی ٹبا کا کہنا تھاکہ جب تک ایکسپورٹ کونہیں بڑھائیں گے توگزارانہیں ہوسکتا، پاکستان ماضی میں بھی آئی ایم ایف پروگرام میں جاچکاہے، پہلےاس طرح ڈیفالٹ کی بحث نہیں ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب کہیں سے بھی پیسے نہیں ملتے تو آئی ایم ایف کے پاس جاتےہیں۔سی ای او اینگروکارپوریشن غیاث خان کا کہنا تھاکہ پاکستان جس کے پاس بھی قرضہ لینے جائے گا توپوچھا جائے گا آپ کے کیا پلان ہیں؟ پاکستان 10 بلین ڈالرزکا فوڈ امپورٹ کرتاہے۔چیئرمین ریفارمز کمیشن اشفاق تولا نے بتایا کہ دنیا کے 10ممالک ہیں جن کا پاکستان سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، ہمارے ہاں ایسے لوگ ہیں جو کہتےہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے گا اور مارکیٹ پراس کا اثر ہوتا ہے۔ماہر معاشیات علی حسنین کا کہنا تھاکہ بہت سارے لوگ پیسے باہر لے جانے کی کوشش کررہےہیں، آئی ایم ایف کے ذریعے ریلیف نہیں ہوتا۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھاکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیروبھی کردیں تو بھی ہمیں 25 ارب ڈالرزکی ضرورت پڑیگی، اب بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہے، مارکیٹ میں ڈالرکی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پلان بی اورسی نہیں سوچنا چاہیے، آئی ایم ایف پروگرام میں ہی جانا ہوگا۔ان کاکہنا تھاکہ اگر چین، سعودی عرب اور دیگر دوست ملکوں نے قرضے رول اوور بھی کر دیے تب بھی 15 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی جو آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا، آئی ایم ایف کا نیا پروگرام نہ لیا تو نئے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ڈیفالٹ کا خدشہ ہوگا۔معروف بزنس مین عارف حبیب کا کہنا تھاکہ ہمیں آؤٹ آف باکس سوچنا ہوگا، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں 6 ارب ڈالرز آئے تھے مگر واپس چلے گئے، بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا ایک بڑا پول ہے ان کو ٹارگٹ کرنا چاہیے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستانیوں کےلیے ایک اسکیم لانی چاہیے جس میں وہ 2 لاکھ ڈالرزجمع کرائیں، اسکیم کے تحت ان دو لاکھ ڈالرز کے عوض پلاٹس اور کسٹم ڈیوٹی کے واؤچرز دینے چاہیے، اسکیم میں حصہ لینے والوں کوگاڑیوں کی امپورٹ ڈیوٹی فری کرنی چاہیے اور اس کو ڈیٹ ریپمنٹ گیپ فنڈ کا نام دینا چاہیے۔عارف حبیب کا کہنا تھاکہ پاکستان نے پوری دنیا میں جھولی پھیلائی ہوئی ہے، پاکستان ڈیفالٹ ہوا تواس کے نتائج سب کےلیے کافی مہنگے ثابت ہونگے۔معاشی تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام حاصل کرنے کی تجویز پیش کی اور کہاکہ ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر چارہ نہیں۔بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود نے کہا کہ حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 43 ارب ڈالر سے کم کر کے 25 ارب ڈالر تک لے آئی ہے، اسے مزید کم کریں تو ڈیفالٹ سے بچ سکتے ہیں۔