ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، ججز پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا:چیف جسٹس
یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا جس جج کو کیس سے ہٹانا ہواس کانام لیکرآڈیو بنادو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جوازہوتےہیں،یہ کیا بات،کوئی بھی آکرکہہ دے فلاں جج فلاں کیس نہ سنیں:جسٹس منیب میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گےکہ ججز پر الزامات کی تشہیر کیسے کی گئی، قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے،مفروضے پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اوراستعمال نہیں کرسکتا :جسٹس عمر عطا بندیال

سلام آباد(کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ نے آڈیولیکس کمیشن کو کام کرنے سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی جبکہ کمیشن کیخلاف بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔مبینہ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ سب فریقین کوسن لیا،اس درخواست پرسوچ بچارکریں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس دستیاب تھے مگر آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام پرآگاہ نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنادیا گیا۔
مبینہ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اوراستعمال نہیں کرسکتا۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے حکومت کی جانب سے بینچ پراعتراض اٹھادیا، اٹارنی جنرل منصورعثمان بینچ پراعتراضات پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ ایک چیزمس کررہے ہیں، ان نکات پردلائل دیں۔اٹارنی جنرل منصورعثمان نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جارہے ہیں کہ ہم میں سے 3ججز متنازع ہیں؟ پھر آپ کو بتانا ہوگا کہ کس بنیاد پر فرض کرلیا 3 ججز کا متنازع ہے، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کاہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ دوسرے زیادہ اہم ایشوپرفوکس کریں۔اٹارنی جنرل نے آڈیولیکس کمیشن کے ٹی اوآرز پڑھ کر سنائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظرمیں درست ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کےلیے ہی توکمیشن بنایاہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا وفاق کوعلم نہیں آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نے تواس پرپریس کانفرنس بھی کردی، کیایہ درست نہیں وزیرداخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کرچکے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز بھی چلائی گئی تھیں، کیا درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتاوہ بینچ پراعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہاہوں۔جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی؟کیا ایسی لاپرواہی برتی جاسکتی؟ ایسے بیان کے بعد تو وزیر کو ہٹادیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کیا ایک وزیر کے بیان کو پوری حکومت کابیان کہا جاسکتا ہے؟ میرےعلم میں نہیں اگر کسی نے کوئی پریس کانفرنس کی۔ عدالت یہ دیکھے وزیرداخلہ کا بیان19مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر چائے پینے کا کہے توالگ بات،یہاں بیان اہم ایشوپردیا، اتنےاہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ویڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرالیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا؟ پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ویڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرالیتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا جس جج کو کیس سے ہٹانا ہواس کانام لیکرآڈیو بنادو، کیس سے الگ ہونے کے پیھچے قانونی جوازہوتےہیں، یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکرکہہ دے فلاں جج صاحب فلاں کیس نہ سنیں۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں؟ کیا حکومت نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کررہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کالز کیسے ریکارڈ ہوئی؟کمیشن کے ذریعے عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تویہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے، وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز ابھی مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کایہی بیان دیکھا جاناچاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کابیان نہیں۔جسٹس منیب اختر اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزیرخزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کانہ سمجھاجائے؟ کیا کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیاجن کی کالزٹیپ ہوئی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ تمام ججزسے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پرعمل ہوسکتاہے، اگرتمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جاسکتا ہے اب کسی نے توسننا ہے، وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنےعمل کا خود جج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارے معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں ہے۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کااعتراض2 اور ججز پر بھی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کامتن آپ کے سامنے ہے،جائزہ لے لیں، بینچ تبدیل ہونے سے درخواست گزاروں کا حق متاثرنہیں ہوگا، استدعا ہے بینچ تبدیلی کی درخواست کوزیرغورلایاجائے۔ بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پراٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔درخواست گزارعابدزبیری کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں فریق ہے وہی کمیشن بنارہی ہے، ٹی اوآرزمیں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر توبات تھی، یہاں عدالت کے سامنےایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹوکی عدلیہ میں مداخلت کاہے۔ بینچ نے کسی کے حق یاخلاف فیصلہ نہیں دینا ایک تشریح کرنی ہے۔شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ کسی بھی جعلی آدمی کے ذریعے جعلی آڈیوزبنوائی جایاکریں گی، یہ توبلیک میلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا، اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا۔ اس پرآڈیوزآنےلگیں،ٹاک شوزمیں کیا نہیں کہا گیا، کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی درست تسلیم کرلیں؟ جس بنیاد پر بینچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی جائے۔س سے قبل درخواست گزار حنیف راہی نے عدالت کو بتایا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پرابھی تک نمبرنہیں لگا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پراعتراضات ہیں تودورکریں، توہین کامعاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، یہ بھی دیکھیں کس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں۔ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا۔یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہی ہے۔