28 مئی پاکستان کی تاریخ کا ایک تابناک دن ہے۔ 25 سال قبل اسی روز (1998ء میں) ایٹمی قوت کا لوہا دنیا سے منوایا گیا تھا۔ پاکستانی قوم کو یہ دن اتنا بھایا کہ ہر سال ’’یوم تکبیر‘‘ منانے کا اعلان کر دیا گیا۔ ملک کے ہر شہر میں اس ’’افتخار‘‘ کی یاد گار کے طور پر ’’چاغی کی پہاڑی‘‘ کے ماڈل نصب کر دئیے گئے۔ اگرچہ پچھلی حکومتوں کے ادوار میں وہ ماڈل ہٹا دئیے گئے، ایٹم بم بنانے والے محسن قوم سائنسدان پابندیوںکے دوران میں وفات پاگئے اور پوری دنیا کی پروا نہ کر کے دھماکے کرانے والے وزیر اعظم بیرون ملک ہیں پھر بھی قوم اس تابناک دن کو فراموش نہیں کر پائی (اور کبھی کرے گی بھی نہیں)میں اس دن کی مناسبت سے کوئی سیاسی بحث چھیڑنے کی بجائے عوام کے ذہنوں میں موجود ایک ’’غلط العام‘‘ معاملے کی تصحیح چاہتا ہوں۔ یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے چاغی کے پہاڑوں میں کیے گئے تھے، جبکہ میں پورے و ثوق سے بتا دوں کہ ’’دھماکے چاغی کی پہاڑیوں میں قطعاً نہیں ہوئے۔‘‘ پانچ ایٹمی دھماکے ’’راس کوہ‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں اور چھٹا دھماکہ ’’خاران‘‘ کے صحرا میں کیا گیا۔ ’’راس کوہ‘‘ کا پہاڑی سلسلہ اور ’’چاغی کی پہاڑیاں‘‘ دو الگ اور باہم متضاد علاقوں اور اطراف میں واقع ہیں۔صوبہ بلوچستان کے 27 اضلاع ہیں (چھ ڈویژن تھیں)۔ کوئٹہ ڈویژن میں کوئٹہ ضلع کے علاوہ پشین، قلعہ عبداللہ اور چاغی کے اضلاع تھے۔ ضلع چاغی پاکستان کا ایک بڑا ضلع ہے لیکن اس کی آبادی پاکستان کے تمام اضلاع میں سب سے کم ہے یعنی فی مربع کلو میٹر صرف 2 افراد۔ اس ضلع کی سرحدیں شمال میں افغانستان اور مغرب میں ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کا رقبہ 50546 مربع کلو میٹر ہے۔ کوئٹہ سے ایران جانے والی ریلوے لائن صرف اس ضلع میں 526 کلو میٹر کی لمبائی میں ہے جو کہ اس ضلع کی وسعت کی دلیل ہے۔ ضلع کا نام ’’چاغی‘‘ ہے مگر اس کا ہیڈ کوارٹر ’’نوشکی‘‘ شہر میں ہے، جبکہ ’’چاغی‘‘ نام کا ایک چھوٹا سا گائوں ہے۔ ’’نوشکی‘‘ میں آباد لوگوں کی اکثریت ’’براہوی‘‘ زبان بولتی ہے۔ نوشکی سے ہی وہ اسمگلنگ بیلٹ بھی شروع ہوتی ہے جو ایران، ترکی اور یونان کے راستے یورپ کے اندرون تک چلی جاتی ہے۔ کوئٹہ سے ایران جانے والی سڑک پر بعض جگہ ایسے پرانے ’’سنگ میل‘‘ بھی دکھائی دیتے ہیں جن کے مطابق کوئٹہ سے لندن نو ہزار کچھ میل ہے۔ ہم نے اسی سڑک پر کئی جگہ پختہ مورچے بھی دیکھے (یہ 1999ء کی بات ہے) جو اسمگلروں سے مقابلے کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس ضلع میں مینگل اور مری قبائل آباد ہیں۔ مینگل براہوی زبان جبکہ مری بلوچی بولتے ہیں۔’’چاغی کا پہاڑی سلسلہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور پاکستان و افغانستان دونوں ملکوں میں اس کے پہاڑ موجود ہیں۔ جبکہ ’’راس کوہ‘‘ کے تمام پہاڑ پاکستان ہی میں ہیں اور ضلع خاران کے ساتھ ملنے والی پٹی پر ضلع چاغی کے رقبے میں واقع ہیں۔ کوئٹہ سے ایران جانے والی سڑک کی دائیں طرف ’’چاغی پہاڑ‘‘ اور ’’چاغی گائوں‘‘ ہے۔ جبکہ ایٹمی دھماکوں والے پہاڑ، سڑک کی بائیں طرف (سڑک سے تقریباً 40 کلو میٹر ) کے فاصلے پر ہیں۔ چاغی پہاڑوں کا سلسلہ اور ناران پہاڑوں کا سلسلہ پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں منقسم ہے۔ جبکہ ’’راس کوہ‘‘ کا سلسلہ صرف پاکستان میں ہے۔’’راس کوہ‘‘ کا یہ پہاڑی سلسلہ ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر نوشکی سے چند کلو میٹر جنوب سے شروع ہوتا ہے اور جنوب مغرب میں 200 کلو میٹر تک چلا جاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ پہاڑی سلسلہ ضلع چاغی اور ضلع خاران کے درمیان سرحد کا کام بھی دیتا ہے۔ ضلعی چاغی کے اہم شہروں میں سے ایک ’’دالبندین‘‘ ہے، جہاں ایئر پورٹ بھی ہے۔ یہ ایئر پورٹ سبق سعودی ولی عہد سلطان بن عبدالعزیزa نے (جب وہ وزیر دفاع تھے) بنوایا تھا۔ کوئٹہ سےایران جانے والی سڑک جب دالبندین سے گزرتی ہے تو اس کی دائیں طرف سعودی امراء اور بائیں طرف متحدہ عرب امارات کے امراء کے مقامات ہیں۔ یہ عرب یہاں تلور کے شکار کے لیے آتے ہیں۔ اسی دالبندین کے نزدیک 344 کلو میٹر پر پھیلے رقبے کو ’’دوستان وڈھ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ’’راس کوہ‘‘ کے سلسلے کے دامن میں ہے، اسی میں ایک چھوٹا سا گائوں ہے جو ’’چھتر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گائوں نوشکی سے 150 کلو میٹر اور کوئٹہ سے ایران جانے والی سڑک سے 40 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ اس ’’چھتر‘‘ نامی گائوں کے ساتھ وہ پہاڑی ہے، جس کو 28 مئی 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکوں کے لیے چنا گیا اور اس جگہ سے تقریباً ایک سو کلو میٹر دور (راس کوہ کی دوسری طرف) صحرائے خاران میں وہ جگہ ہے جہاں 30 مئی 1998ء کو چھٹا ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا۔جب دھماکے کیے جانے تھے تو ’’چھتر‘‘ گائوں کے تمام (دو سو) افراد کو یہاں سے 20 کلو میٹر دور ایک قصبے ’’کلی اعظم‘‘ میں ٹھہرایا گیا۔ ’’راس کوہ‘‘ کے اس پہاڑی سلسلے کو اس لیے چنا گیا کہ یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی، قریب ترین آبادی بھی صرف دو سو نفوس پر مشتمل تھی جنہیں آرام سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا تھا۔ دھماکے کا مقام ویران پہاڑ تھا جہاں کسی کے آنے جانے کا امکان نہ تھا، نیز یہ علاقہ کسی بھی زمینی و فضائی گزر گاہ سے یکسر ہٹ کر تھا۔ کارروائی چونکہ خفیہ تھی اس لیے اس سے بہتر جگہ ملنا ممکن نہ تھی، دوسرے ’’راس کوہ‘‘ کا یہ پہاڑ مضبوط چٹانی ساخت کا تھا۔ چھٹے دھماکے کے لیے ’’صحرائے خاران‘‘ کا انتخاب (مذکورہ بالا وجوہ کی بناء پر) ہوا۔ یہاں ایک سرنگ زمین کے اندر 120 میٹر کی گہرائی میں ترچھی بنائی گئی۔ ان علاقوں میں ایٹمی سائنسدان (دھماکوں کے سلسلے میں) ستر دن رہے۔ جبکہ چھتر کے ریسٹ ہائوس وغیرہ میں ماہرین ارضیات اور دیگر اہلکار کافی عرصہ پہلے سے آچکے تھے۔ خاران میں ہنگامی لینڈنگ کے لیے ایک ہیلی پیڈ بھی موجود ہے جو کوئٹہ سےایران جانے والی سڑک سے ’’احمد ماس‘‘ کے مقام سے ’’خاران‘‘ جانے والی سڑک پر بائیں طرف نظر آتا ہے۔پاکستان کے رہنے والوں کے لیے ’’یوم تکبیر‘‘ ایک فخر کا دن اور ’’چاغی‘‘ ایک مرکز عقیدت ٹھہرا ہے توایسے میں ان کو بتا دیا جائے کہ وجہ افتخار، پانچ ایٹمی دھاکے راس کوہ کے پہاڑوں میں ہوئے تھے۔ البتہ وہ پہاڑ ضلع چاغی میں ضرور واقع ہیں، چھٹا دھماکہ ضلع خاران کے صحرا میں کیا گیا تھا۔رانا شفیق خاں پسروری
With Product You Purchase
Subscribe to our mailing list to get the new updates!
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur.
Related Articles
عقیدتوں کے محور کا قومی !حجاز مقدس
18 گھنٹے ago
نجکاری کیوں ضروری ہے؟
18 گھنٹے ago
وائس چانسلرز کا انتخاب اور چیلنجز
18 گھنٹے ago
Check Also
Close