کالم

ایف آئی سی میں بدانتظامی

رانا اقبال حسن

ایف آئی سی جس کو ایک سٹیٹ آف دی آرٹ دل کے ہسپتال کے طور پر بنایا گیا اور جو ماضی میں فیصل آباد اور اس کے گرد نواح کے لاکھوں افراد کے لئے دل کے امراض کے لئے شاندار سروسز مہیا کرتا آیا ہے ۔ اسوقت سخت بدانتظامی کا شکار ہو چکا ہے اس کے اندر ڈاکٹرز اندرونی سیاست میںُ ملوث ہو چکے ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے کسی ریگولر ایم ایس کی تعیناتی نہیں کی جا سکی ہے اسکی وجہ بھی ڈاکٹرز کی سیاست ہے ۔ پنجاب کےا س بڑے صحت کے ادارے کو ایڈہاُک بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے اور مریضوں کی خبر گیری اور ہسپتال میں بہتری کی بجائے یہ ادارہ مسلسل تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔ اسوقت حالت یہ ہے کہ ہسپتال میں ای سی جی اور سی پی آر کا عمل مبینہ طور پر خاکروبوں کے ذریعے سرانجام دیا جاتا ہے ۔ سنٹرالئزڈ اے سی سسٹم کو ناکام کر دیا گیا ہے اور مریض شدید گرمی میں تڑپتے رہتے ہیں ۔ انتظامیہ کی نااہلی سے ہسپتال کی فارمیسی میں جان بچانے والی ادویات اور آلات ناپید ہو چکے ہیں ۔ لوکل پر چیز کے ذریعے من پسند خریداری کی جاتی ہے جس کا کوئی آڈٹ نہیں ہے ۔ ایم ایس جو ایک جونئیر ڈاکٹر ہے اس پر الزام ہے کہ وہ سینئر ڈاکٹر کے ساتھ اچھی طرح پیش نہیں آتے ۔ اور جب تک کوئی تگڑی سفارش نہ ہو اس ہسپتال سے علاج کروانا ممکن نہ ہے ۔ سیاسی بنیادوں پر تعینات ایم ایس پہلے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی آنکھ کا تارا تھے اب مخا لف سیاسی جماعت کو بھی رام کر کے بغیر میرٹ کے تعیناتی جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی ریگولر ایم ایس کی تعیناتی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔
پچھلے دنوں ایک سینئر پروفیسر آف کارڈک سرجری نے ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور میڈیکل سپرینٹنڈنٹ کے خلاف ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور ہیلتھ کئیر کمیشن میں کمپلینٹ کی ہے جسکو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہسپتال کے اندر چھڑی سیاست کس طرح دل کے انتہائی حساس مریضوں کے لئے جان لیوا ہو سکتی ہے بقول پروفیسر شہباز خلجی کہ اسکو دوران سرجری ہسپتال کے ای ڈی اور ایم ایس نے آ کر ڈرایا دھمکایا اور بغیر اس بات کا خیال کئے کہ وہ ایک انتہائی سیریس آپریشن کر رہا تھا وہ دونوں آپریشن تھیٹر کے اندر گھس آئے جو آپریشن ایس و پیز اور میڈیکل اخلاقیات کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے ۔ اسکے ساتھ انتہائی بد کلامی کی گئی اور اسکو اشتعال دلا کر مریض سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی جو مریض کی زندگی کے لئے مہلک ہو سکتی تھی ۔ انہوں نے حکام بالا سے اس معاملے کی انکوائری کرنے کی درخواست کی ہے اسطرح اگر اس وقت اس ادارے کے دو کرتا دھرتاؤں کے پروفیشنلزم کی یہ حالت ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے نیچے کام کرنے والے سٹاف کس طرح لوگوں اور مریضوں کے ساتھ پیش آرہے ہوں گے ۔ مبینہ طور پر ہسپتال کے یہ کرتا دھرتا اپنے آفس میں بیٹھ کر پرائیویٹ مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں ۔ اور پارکنگ اور صفائی کے کنٹریکٹرز کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے جس سے گاڑیوں کی پارکنگ میں اوورچارجنگ اور ہسپتال کے مختلف حصوں میں گندگی اور کاکروچوں کی موجودگی کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں ۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ریگولر بنیادوں پر کسی قابل میڈیکل سپرینٹنڈنٹ کی تعیناتی کی جائے اور محکمہ ہیلتھ ہسپتال میں مریضوں کو ادویات اور دوسری سہولیات مہیا کرنے کے لئے فنڈز کی دستیابی یقینی بنائے اور ادارے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والے سیاست میں ملوث ڈاکٹروں کو یہاں سے ٹرانسفر کیا جائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: