کالم

اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

محسن گورایہ

سول سوسائٹی اور سیفما کے راہنما ،سینئر صحافی امتیاز عالم کی موجودہ سیاسی اور ادارہ جاتی بحران ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کے باوجود بات اٹکی رہی مگر مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے محترم مجیب الرحمنٰ شامی ،سی پی این ای کے صدر کاظم خان،علامہ صدیق اظہر اور دوسروں کے ساتھ مل کر وہ کام کیا جس کے لئے احمد فراز نے کہا تھا ،
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے
ایک ایسے ماحول میں جب وفاقی حکومت اپنا آئینی کردار چھوڑ کر ایک مہم جوئی پر آمادہ ہے،کشیدہ ترین سیاسی ماحول میں وفاقی حکومت کا رویہ مفاہمانہ نہیں، معاندانہ ہے جس کے باعث گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کا امکان دکھائی نہیں پڑ رہا تھا،تناؤ دباؤ کے اس ماحول میں بیک ڈور رابطے بھی ہوئے فریقین ایک میز پر بھی بیٹھے مگر اونٹ کسی کروٹ بیٹھا، نہ بیٹھنے دیا گیا،ہر کوئی میں نہ مانوں کی رٹ لگائے اپنی بات منوانے پر بضد دکھائی دیا،نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ،آثار بتا رہے تھے کہ قانون ساز عدلیہ سے مڈھ بھیڑ میں ”ایک کی چونچ اور ایک کی دم“گنوا بیٹھیں گے، مگر گزشتہ چند دنوں میں ہونے والی پیش رفت میں امید کی کرن نظر آئی ہے،اگر چہ یہ کرن بھی ٹمٹماتی لو جیسی ہی ہے مگر بات آگے ضرور بڑھی ہے،پیپلز پارٹی نے سیاسی مذاکرات کیلئے بہت بولڈ اقدام کیا،بلاول بھٹو نے اس کا بیڑہ اٹھایا اور پہلے مرحلے میں اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے بات چیت کا ڈول ڈالا،اس سلسلے میں اتحادی جماعتوں کا سربراہی اجلاس بھی طلب کیا گیا،قوم پرست جماعتوں اور ایم کیو ایم نے سیاسی ڈائیلاگ کی حمائت کی،مگر جے یو آئی(ف) کے مولانا فضل الر حمٰن نے پلہ نہ پکڑایا وہ کسی بھی طور عمران خان یا تحریک انصاف سے بات چیت کے حق میں نہ تھے،وزیر اعظم شہباز شریف نے غیر مشروط مذاکرات کا عندیہ دیا مگر ان کی پارٹی میں اس حوالے سے اختلافات بہت نمایاں ہیں،سینئر پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد عمران خان کیساتھ ایک میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں،تا ہم اس کے باوجود لگتا ہے کہ برف پگھلی یا نہ پگھلی مگر کسی نے اشارہ دیا ہے کہ بہت ہو گئی اب کوئی بیچ کی راہ نکالی جائے ، اب کے ملنے والا اشارہ شائد ایسا ہے جسے رد کرنا فریقین کیلئے ممکن ہی نہیں لہٰذا بات چل نکلی ہے اور ”بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی“۔
منگل کے روزسپریم کورٹ کے حکم پرالیکشن کمیشن کو پنجاب میں انتخابات کیلئے 21ارب روپے فراہم کرنے کا آخری روز تھامگر سٹیٹ بینک نے فراہم نہ کئے،اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی،عدالت عظمیٰ کے بینچ کو بتایا گیا کہ وزارت خزانہ نے انہیں پیسے نہیں دئیے ان کے پاس بیلٹ پیپرز اور تصویر والی ووٹنگ لسٹیں شائع کرانے اور دیگر انتظامات کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں،یہ بھی بتایا گیا کہ الیکشن کیلئے 3لاکھ66ہزار افراد سکیورٹی کیلئے درکار ہیں جو فراہم نہیں کئے جا رہے ایسے میں ہمارے لئے الیکشن کرانا ممکن نہیں،یہ بھی بتایا گیا کہ ایک ہی روز ملک بھر میں الیکشن نہ کرانے سے انارکی پھیلے گی،کسی ایک صوبے میں الیکشن سے شفافیت بھی مشکوک رہے گی،ہم ہر وقت الیکشن کرانے کو تیار ہیں مگر وسائل فراہم کئے جائیں،اس صورتحال کا اندازہ پیر کے روز ہی ہو گیا تھا جب قائمہ کمیٹی نے فنڈز کے اجراء کا معاملہ قومی اسمبلی کی کورٹ میں پھینک دیا تھا اور قومی اسمبلی نے فنڈز جاری کرنے سے روک دیا تھا،قائم مقام گورنر سٹیٹ
بینک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ عدالتی حکم پر پیسے الگ کر دئیے ہیں مگر ہمیں الیکشن کمیشن کو ٹرانسفر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے،یہ سارا فسانہ اس تان پر ٹوٹتا تھا کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ہی روز اکتوبر میں ہوں گے،جس کا وزیر اعظم سمیت اہم حکومتی عہدیدار برملاء اظہار کرتے رہے ہیں۔
افراتفری،انتشار کی اس صورتحال میں ایک بہت ہی اہم ملاقات سے جاری ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا،پنجاب میں الیکشن کیلئے قائم بینچ کے سربراہ چیف جسٹس اور دو ممبر جج صاحبان سے خفیہ اداروں کے سربراہوں نے طویل ملاقات کی،مصدقہ اطلاعات تو نہیں مگر قیاس ہے کہ اس ملاقات میں سکیورٹی کی صورتحال،دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہو گی،قرین قیاس ہے کہ سیکرٹری دفاع نے الیکشن کیلئے سکیورٹی نہ دینے کے حوالے سے جو خط سپریم کورٹ کے بینچ کو بھجوایا تھا اسی کی روشنی میں بات ہوئی ہو گی،یہاں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے پالیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس سے خطاب کا حوالہ بھی ضروری ہے جس میں انہوں نے عوام کی حاکمیت،منتخب حکومت کی نگرانی میں دہشت گردی کے خلاف اپریشن کے علاوہ کہا کہ فیصلوں کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے،یہ دراصل فوج کے سیاسی معاملات سے الگ رہنے کے عزم کا اعادہ اور فیصلہ سازی یا حکومتی امور میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان تھا،گمان ہے کہ سیاسی گرم بازاری کے حوالے سے شائد عسکری قیادت کی بھی وزیر اعظم سے کوئی بات ہوئی ہو مگر معاملہ ابھی طے نہیں پایا،اور ڈراپ سین میں ابھی کچھ وقت باقی ہے کہ نواز شریف خود بھی عمران خان کیساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں،جس کے باعث معاملات ادھیڑ بن میں ہی اٹکے ہوئے ہیں۔
قبل ازیں سول سوسائٹی کے ارکان نے بھی عمران خان سے ملاقات کی اور برف پگھلانے کی کوشش کی، وزیر اعظم سے ملاقات کا وقت مانگا مگر نہیں ملا جس کے باعث ان کی کوشش بار آور نہ ہو سکی، مگر وہ اپنا کام کر گئے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عمران خان سے ملاقات میں تجویز دی کہ وہ 90روز میں الیکشن کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں مگر وہ نہیں مانے اور جواب دیا کہ یہ آئینی تقاضا ہے،وزیر اعظم سے ملاقات میں انہوں نے اکتوبر میں الیکشن کی ضد چھوڑنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ پورے ملک میں ایک متفقہ تاریخ پر الیکشن کرانا ہی ملک کے مفاد میں ہے،مگر وہ بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے،یوں معاملات ابھی الجھاؤ کا شکار ہی دکھائی دیتے ہیں،تاہم اب ڈوریاں جو ہلی ہیں تو لگتا ہے کہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا ۔
موجودہ صورتحال میں عمران خان کا90روز میں الیکشن کرانے کا مطالبہ اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ دونوں آئین کی رو سے بالکل جائز ہیں،مگر اس حوالے سے حکومت کی بھی شائد مجبوریاں ہوں،اگرچہ حکومت انتخابی مہم میں جانے سے پہلے عوامی ریلیف کیلئے کچھ ایسے اقدامات بروئے کار لانا چاہتی ہے جو انہیں عوام میں سرخرو کر دیں،مگر کچھ انتظامی مسائل بھی ہونگے جن کو نظر انداز کرنا ممکن
نہیں،ایک آئینی ایشو بھی ہے،جب کوئی رکن وفات پاجائے یا نا اہل جائے استعفیٰ دیدے تو اس حلقہ میں ضمنی الیکشن اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کیلئے ہوتا ہے،مگر تحلیل کی جانیوالی اسمبلی کا الیکشن پورے پانچ سال کیلئے ہونا ایک سوالیہ نشان ہے،اس حوالے سے آئین سازوں اور آئینی ماہرین کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہو گا تاکہ آئین کی تشریح مبالغہ،ذاتی،سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر نہ کی جائے بلکہ زمینی حقائق کے مطابق ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: