کالم

اقبال کی نظم’’فلسطینی عرب سے‘‘کی شاعری کا فکری مطالعہ

رحمت عزیز خان چترالی

اردو شاعری اور ادب کے منظر نامے میں ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ایک مشہور شخصیت، فلسفی، ادیب، شاعر اور مفکر کے طور مشہور ہیں جو اپنے گہرے فلسفیانہ افکار اور پر مغٖز خیالات کے ساتھ ساتھ اپنے شاہکار اردو اور فارسی شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ اقبال کی نظم’’فلسطینی عرب سے‘‘ کا فنی و فکری مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نظم فلسطین کے مسلمانوں کی شناخت،ان کی جدو جہد آزادی اوراسرائیلی جبرو تشدد اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف جدوجہد کے موضوعات پر مشتمل مزاحمتی بلکہ عربوں کے لیے نصیحتی شاعری ہے۔ اقبال مصیبت کے وقت فلسطینی عربوں کی لچک کا ذکر کرتے ہوئے فلسطین پر یہودی قبضے کو چیلنج کرتے ہوئے عرب اسپین کی تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کا راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) نے چترال، مٹلتان کالام اور گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبان کھوار میں تراجم کئے ہیں۔
یہ نظم مختصر شاعری پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود بھی علامہ محمد اقبال اپنے پیغام کو مؤثر طریقے سے عربی مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے براہ راست گفتگو کے انداز کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں بہترین تصوّر کا استعمال کیا ہے۔ نظم میں اقبال نے عربوں کے اندر جلنے والی آگ کی بھی بات کی ہے، جو ان کے جذبے اور عزم کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنی نظموں میں علامہ اقبال پیچیدہ خیالات کو بیان کرنے کے لیے استعارے استعمال کرتے ہیں ۔ نظم میںانکے اشعار غلامی کی نفی کرتے ہیں۔اقبال کی اس شاہکار شاعری میں عربوں خصوصاً فلسطین پر غیر ملکی طاقت اور اسرائیل کے ناجائز اور غاصبانہ تسلط کو استعاراتی طور پر بیان کیا گیا ہے:
سُنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہَ یہود میں ہے
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d