اداریہ

افغان حکام ٹی ٹی پی مسئلہ حل کروائیں

افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ :’’ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام سے درخواست ہے کہ مل بیٹھ کر بات چیت کریں۔ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان میں ہماری حکومت کو 20 ماہ ہوچکے ہیں، اللہ کے کرم سے بہت سے مسائل پر قابو پالیا ہے، ہم نے حکومت میں آنے کے بعد چیلنجز پر قابو پانے کی کوشش کی، دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں پابندیاں بڑا چیلنج ہیں، پابندیوں کی وجہ سے بینکوں کو خام مال درآمد کرنے میں مشکلات ہیں جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مہنگائی کم اور افغان کرنسی کی قدر مستحکم ہوئی، چیلنجز اور عالمی پابندیوں کے باوجود افغانستان کی معیشت میں بہتری آئی اور افغان حکومت نے بجٹ بیرونی امداد کے بغیر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان اور وسط ایشیا سے معاشی تعلقات استوارکرنا چاہتے ہیں، ہماری خارجہ پالیسی ڈائیلاگ اور باہمی روابط پر استوار ہے، خطے میں معاشی خوشحالی اور کنیکٹیوٹی کی پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان گزشتہ دو سال سے سیاسی اور معاشی چیلنجزسے گزر رہے ہیں، دونوں ممالک میں گروتھ کی صلاحیت موجود ہے، پاکستان ہمارا ہمیشہ سے فوکس رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ اقتصادی رابطوں میں شروع سے دلچسپی رہی ہے، سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود پاکستان سے تجارتی سلسلہ جاری رہا، امید ہے اقتصادی روابط آگے بھی قائم رہیں گے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک نے بہت سے حالات دیکھے، اب مل کر ایک دوسرے کے ساتھ چلیں گے‘‘۔
پاکستان میں اس وقت ایک جانب تو سیاسی عدم استحکام مسلسل جاری ہے اور دوسری جانب ٹی ٹی پی جیسی دہشت گردتنظیمیں منظم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو دوسال کاعرصہ ہونے کوہے لیکن ان کی حکومت کے حوالے سے جس طرح امن وامان کی توقع کی جارہی تھی وہ قائم نہیں ہوسکا ہے،البتہ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ طالبان حکومت نے افغانستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے ’’وارلارڈز‘‘کا مکمل خاتمہ کردیا ہے اورافغانستان میں امن کا بول بالا کر دیا ہے لیکن دوسری طرف طالبان حکومت ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں پر قابوپانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں مسلسل کارروائیاں جاری ہیں۔خیبرپختونخوا ہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں اور ان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ٹی ٹی پی ایک جانب مذاکرت کی بات کر تی ہے اور دوسری جانب اپنے لیڈرز کو حکم جاری کرتی ہے کہ آپ ملک بھر میں حملے کر سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے صاف ظاہر ہوتاہے کی ٹی ٹی پی یہ جنگ روکنے میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی اورپاکستانی حکومت کے درمیان مئی2022ء میں ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور پھر جون کے مہینے میں مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کا اعلان غیر معینہ مدت تک کے لیے کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے بعد چند ماہ تو پُرامن رہے لیکن پھر ستمبر میں ایک مرتبہ پھر غیر اعلانیہ حملے شروع ہوئے۔ ان حملوں میں جہاں سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا وہاں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا۔ اس سال ستمبر کے بعد سے ایک سو سے زائد حملے ہوئے ہیں جن میں بیشتر کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے ترجمان نے قبول کی ہے۔
اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پاکستانی فوج ،پولیس اوردیگر متعلقہ اداروں نے دہشت گرد گروہوں کی کمرتوڑکررکھ دی ہے اوراب وہ زیادہ منظم انداز سے حملے کرنے کے قابل نہیں رہے لیکن خطرات تو بہرحال موجود ہیں۔حال ہی میں ٹی ٹی پی نے سوات وغیرہ میں پھر سے سراٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ،اسی طرح دیگر علاقوں میں بھی ان کی قوت اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن دوسری طرف وزیرستان اور بلوچستا ن میں منظم حملے جاری ہیں اورآئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ نمٹنے کاآسان طریقہ یہی ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر اس عفریت پر قابو پانے کی کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ کابل انتظامیہ کو سخت پیغام بھی دیاجائے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کو قابو نہیں کر سکتی تو پھر پاکستان اس دہشت گرد تنظیم کا قلع قمع کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ حوصلہ افزاء ہیں لیکن انہیں محض بیانات سے آگے نکل کر اب ٹی ٹی پی کو قابو میں لانا ہوگا وگرنہ جب تک ٹی ٹی پی منظم صورت میں موجود ہے پاک افغان تعلقات کبھی بھی مستحکم نہیں ہو سکیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: