عدل و انصاف کسی بھی قوم یا معاشرے کو نہ صرف استحکام عطا کرتا ہے بلکہ اس کی بقا کا ضامن بھی ہوتا ہے۔یہ عدل نہیں جو ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتا ہےکہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ غریب کو سخت ترین سزا دی جائے۔یہاں تو ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ قانون بنایا ہی اس لئےجاتا ہے تاکہ توڑا جائے اور بدقسمتی سے سب سے زیادہ قانون شکنی وہی لوگ کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں قوانین پاس کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کی اس سے زیادہ سبکی اور کیا ہو گی کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رُول آف لا انڈیکس 2021 میں پاکستان 10 بدترین ممالک میں شامل تھا،اسے قانون پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے 139 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پررکھا گیا۔۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کی عدم فراہمی اور انصاف کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی انتہائی پریشانی اور مایوسی کی کیفیت میں بیرون ممالک شفٹ ہونا شروع ہو چکی ہے اور ملکی سرمایہ باہر منتقل ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہو رہا ہے جس کا تصور بھی ممکن نہیں کیونکہ وزارت سمندر پار پاکستانیز کے ذیلی ادارے بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں پاکستان بھر سے 8 لاکھ سے زائد افراد روزگار کی تلاش میں بیرون ملک گئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے آٹھ ہزار بزنس مین اپنی فیملیز کے ساتھ بیرونِ ملک منتقل ہوئے ہیں۔اگر ایک بزنس میں اپنے ساتھ ایک ملین ڈالر بھی لے گیا ہو تو8500 ملین ڈالر ملک سے باہر گیا ہے۔اسی سے ہی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر سرمایہ باہر جا رہا ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی کو صرف آپ سے ہی امید ہے کہ آپ ہی ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکال سکتے ہیں اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہر شہری کو یقین ہو کہ اسے وقت پر انصاف ملے گا اور اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی۔آپ پر لوگ اس حد تک اعتماد کرتے ہیں کہ جب آپ نے کہا کہ ملکی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے تو وہ لوگ جنہوں نے کئی ماہ سے قانون کی دھجیاں اڑا کر سٹیٹ کے اندر سٹیٹ بنا رکھی تھی، انہیں یقین ہو گیا کہ اگر وہ اب بھی راہِ راست پر نہ آئے اور زمان پارک سے دوری اختیار
نہ کی تو ان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہو گی اور پھر وہ راتوں رات زمان پارک کے گردو نواح سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اور وہ جگہ جو ایک پکنک پوائنٹ بن چکی تھی اور ہر وقت ایک میلے کا منظر بیان کر رہی تھی راتوں رات خالی ہو گئی ۔یوں ان لاکھوں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا جو ان جتھوں کی وجہ سے کئی ماہ سے خوار ہو رہے تھے۔ پاکستان میں لا اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال ہے کہ ہر بندہ قانون کی دھجیاں صرف اس لئے اڑا رہا ہوتا ہے کہ اسے علم ہوتا ہے کہ ان کے سیاست اور بیوروکریسی میں اتنے تعلقات ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ جتنی چاہے زیادتی کر لیں یا جتنا بڑا جرم کر لیں انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ دوسری طرف اگر ہم دوبئی کو دیکھیں جنہیں ہم بدو کہہ کر پکارتے ہیں وہاں لا اینڈ آرڈر کا یہ عالم ہے کہ کسی کی جرات نہیں کہ وہ قانون شکنی کر سکے۔اس کے باوجود کہ دوبئی میں کل آبادی کا صرف دسواں حصہ وہاں کی لوکل آبادی ہے اور 90 فیصد لوگ دوسرے ملکوں سے آکر وہاں رہ رہے ہیں۔پوری دنیا وہاں سرمایہ کاری کر رہی ہے وجہ صرف اور صرف انصاف کی فراہمی ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی وہاں سکون میں ہے جبکہ ہمارے ہاں بے سکونی اور ناانصافی کا راج ہے۔۔میرے ایک انجینئر دوست ہیں جنہوں نے فائر پروف لباس تیار کیا جو دنیا بھر کی آئل ریفائنڈری میں استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے شروع میں جاب بھی کی اور پھر ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچے کہ اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری قائم کر لی۔کچھ دن پہلے میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میں نے تین سال پہلے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اور ملک میں شفٹ ہو جائے کیونکہ وہ پاکستان میں بزنس کے جو حالات دیکھ رہے ہیں اور بزنس مین جس دبائو کا شکار ہیں وہ اس ماحول میں کام نہیں کر پائیں گے۔اس وقت میرے بیٹے نے بے ساختہ کہا کہ اس دھرتی پر میرے دادا دادی اور آبائواجداد کی قبریں ، بھلا میں کیسے اس سے دور ہو سکتا ہوں،آئندہ آپ مجھ سے ایسی بات نہ کیجئے گا۔مگر دو ماہ پہلے اسی بیٹے نے مجھ سے کہا کہ ڈیڈی اب میں نے اس ملک میں نہیں رہنا کیونکہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ میں ہر وقت خوف میں رہتا ہوں، مجھے یہاں تحفظ نہیں ہے، میں بہت بڑا ایکسپورٹر ہوں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مجھے ایوارڈ دیا جاتامگر الٹا مجھ سے ایک محکمے کے بہت بڑے افسر نے کمیشن مانگ لی ہے۔یہ سب لاقانونیت کی وجہ سے ہے ، اگر اسے قانون کا ذرا بھی خوف ہوتا تو اسے جرات نہ ہوتی کہ وہ ایسی بات سوچتا بھی نہیں۔۔۔آرمی چیف صاحب خدا کیلئے اس پر توجہ دیں اور یہاں پر لا اینڈ آرڈر اور انصاف کی صورتحال بہتر کر دیں تو وہ لوگ جو اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں صرف وہ ہی نہیں بلکہ اوورسیز پاکستانی بھی یہاں پر سرمایہ لانے کیلئے تیار ہو جائیں گے اور ملک ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دے گا۔