حضرت عبداللہ بن کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) حضرت کعب بن مالکؓ سے سنا (جو اپنے والد کو نابینا ہو جانے کی وجہ سے پکڑ کر چلایا کرتے تھے) انہوں نے غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تمام لڑائیوں میں حاضر رہا۔ مگر تبوک اور بدر میں پیچھے رہ گیا بدر میں پیچھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عتاب نہیں ہوا۔ جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غرض یہ تھی کہ قافلہ قریش کا تعاقب کیا جائے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نے اچانک حائل کر دیا اور جنگ ہو گئی میں (بیعت) عقبہ کی رات کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے اسلام پر قائم رہنے کا عہد لیا اور مجھے تو (بیعت) عقبہ کی رات جنگ بدر کے مقابلہ میں عزیز ہے اگرچہ جنگ بدر کو لوگوں میں زیادہ شہرت اور فضیلت حاصل ہے اور جنگ تبوک میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل کبھی میرے پاس دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں مگر اس غزوہ کے وقت میں دو سواریوں کا مالک بن گیا، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ جب کہیں جنگ کا خیال کرتے تو صاف صاف پتہ نشان اور جگہ نہیں بتاتے تھے بلکہ (جنگی حکمت عملی کے تحت) کچھ گول مول (مجہول) الفاظ میں ظاہر کرتے تھے تاکہ کوئی دوسرا مقام سمجھتا رہے غرض جب لڑائی کا وقت آیا تو گرمی بہت شدید تھی راستہ طویل اور بے آب و گیاہ تھا دشمن کی تعداد زیادہ تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پورے طور پر آگاہ کر دیا کہ ہم تبوک جا رہے ہیں تاکہ تیاری کر لیں اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں مسلمان موجود تھے مگر کوئی ایسی کتاب (دستاویز)وغیرہ نہیں تھی کہ اس میں سب کے نام لکھے ہوئے ہوں۔
حضرت کعبؓکہتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا کہ جو اس لڑائی میں شریک ہونا نہ چاہتا ہو مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی کرتے تھے کہ کسی کی غیر حاضری آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وحی نہ آئے غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑائی کی تیاریاں شروع کر دیں اور یہ وقت تھا جب کہ میوہ پک رہا تھا اور سایہ میں بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا تھا (گرمی کے دن تھے) سب تیاریاں کر رہے تھے مگر میں ہر صبح کو یہی سوچتا تھا کہ میں تیاری کر لوں گا کیا جلدی ہے؟ میں تو ہر وقت تیاری کر سکتا ہوں اسی طرح دن گزرتے رہے ایک روز صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانہ ہو گئے میں نے سوچا ان کو جانے دو اور میں دو ایک دن میں تیاری کر کے راستہ میں ان سے جا ملوں گا، غرض دوسری صبح کو میں نے تیاری کرنی چاہی مگر نہ ہو سکی اور میں یوں ہی رہ گیا، تیسرے روز بھی یہی ہوا اور پھر میرا برابر یہی حال ہوتا رہا اب سب لوگ بہت دور نکل چکے تھے میں نے کئی مرتبہ قصد کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا کر مل جاؤں مگر تقدیر میں نہ تھا کاش! ایسا کر لیتا!
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلے جانے کے بعد میں جب مدینہ میں چلتا پھرتا تو مجھ کو یا تو منافق نظر آتے یا وہ نظر آتے جو کمزور ضعیف اور بیمار تھے مجھے بہت افسوس ہوتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ میں مجھے کہیں بھی یاد نہیں کیا البتہ تبوک پہنچ کر جب سب لوگوں میں تشریف فرما ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کعب بن مالک کہاں ہیں؟ بنی سلمہ کے ایک آدمی عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ تو اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے کی وجہ سے رہ گئے ہیں لیکن معاذؓ نے کہا کہ تم نے اچھی بات نہیں کی۔ خدا کی قسم اے اللہ کے رسول! ہم تو انہیں اچھا آدمی جانتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو رہے کعب بن مالکؓکا بیان ہے کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آ رہے ہیں تو میں سوچنے لگا کہ کوئی ایسا حیلہ بہانہ ہاتھ آ جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ سے مجھے بچا سکے پھر میں اپنے گھر کے سمجھدار لوگوں سے مشورہ کرنے لگا کہ اس سلسلہ میں کچھ تم بھی سوچو، مگر جب یہ بات معلوم ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے بالکل قریب آ گئے ہیں تو میرے دل سے اس حیلہ کا خیال دور ہو گیا اور میں نے یقین کر لیا کہ جھوٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ سے نہیں بچا سکے گا، صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نفل ادا فرماتے۔
اب جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آنا شروع کیا اور اپنے اپنے عذر بیان کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے یہ لوگ اسی یا اس سے کچھ زیادہ تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ان کے عذر قبول کر لئے اور ان سے دوبارہ بیعت لی اور ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کے دلوں کے خیالات کو خدا کے حوالے کر دیا کعبؓ کہتے ہیں میں بھی آیا السلام علیکم کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی مسکراہٹ سے جس میں غصہ بھی جھلک رہا تھا جواب دیا اور فرمایا آؤ، میں سامنے جا کر بیٹھ گیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کعب تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ حالانکہ تم نے تو سواری کا بھی انتظام کر لیا تھا میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا درست ہے میں اگر کسی اور کے سامنے ہوتا تو ممکن تھا کہ اس سے بہانہ وغیرہ کر کے چھوٹ جاتا کیونکہ میں بول بھی خوب سکتا ہوں مگر خدا گواہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اگر آج میں نے جھوٹ بول کر آپ کو راضی کر لیا تو کل اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اس لئے میں سچ ہی بولوں گا چاہے آپ میرے اوپر غصہ ہی کیوں نہ فرمائیں آئندہ کو تو خدا کی مغفرت اور بخشش کی امید رہے گی خدا کی قسم میں قصور وار ہوں حالانکہ مال و دولت میں کوئی بھی شریک نہ ہو سکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کعب نے صحیح بات بیان کر دی اچھا جاؤ اور خدا کے حکم کا اپنے حق میں انتظار کرو غرض میں اٹھ کر چلا تو بنی سلمہ کے آدمی بھی میرے ساتھ ہو لئے اور کہنے لگے کہ ہم نے تو اب تک تمہارا کوئی گناہ نہیں دیکھا ہے تم نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بہانہ پیش کر دیا ہوتا حضور کی دعاء مغفرت کے لئے کافی ہوتی وہ برابر مجھے یہی سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں اور پہلے والی بات کو غلط ثابت کر کے کوئی بہانہ پیش کر دوں۔
پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی اور بھی ہے؟ جس نے میری طرح اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے انہوں نے کہا ہاں دو آدمی اور بھی ہیں جنہوں نے اقرار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا ہے جو کہ تم سے ارشاد کیا ہے میں نے ان کے نام پوچھے تو کہا ایک مرارہ بن ربیع عمرویؓ دوسرے بلال بن امیہ واقفی یہ دونوں نیک آدمی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہو چکے تھے مجھے ان سے ملنا اچھا معلوم ہوتا تھا غرض ان دو آدمیوں کا نام سن کر مجھے اطمینان ہو گیا اور میں چل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو منع فرما دیا تھا کہ ان تین آدمیوں سے کوئی کلام نہ کرے مگر دوسرے رہ جانے والے اور جھوٹے بہانے کرنے والوں کے لئے یہ حکم نہیں دیا تھا آخر لوگوں نے ہم سے الگ رہنا شروع کر دیا اور ہم ایسے ہو گئے جیسے ہمیں کوئی جانتا ہی نہیں ہے گویا آسمان و زمین بدل گئے ہیں غرض پچاس راتیں اسی حال میں گزر گئیں میرے دونوں ساتھی تو گھر میں بیٹھ گئے مگر میں ہمت والا نہیں تھا نکلتا رہا با نماز جماعت میں شریک ہوتا بازار وغیرہ جاتا مگر کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھی آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مصلے پر رونق افروز ہوتے ہیں سلام کرتا اور مجھے ایسا شبہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہونٹ ہل رہے ہیں شاید (دل میں) سلام کا جواب دے رہے ہیں پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھنے لگتا مگر آنکھ چرا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی دیکھتا رہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کرتے ہیں (میرے متعلق رویہ کیا ہے) چنانچہ میں جب نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے دیکھتے رہتے اور جب میری نظر آپ سے ملتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منہ پھر لیا کرتے تھے۔
اس حال میں مدت گزر گئی اور میں لوگوں کی خاموشی سے عاجز آ گیا اور پھر اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہؓ کے پاس باغ میں آیا اور سلام کیا اور اس سے مجھے بہت محبت تھی مگر خدا کی قسم! اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا میں نے کہا اے ابو قتادہ تو مجھے اللہ اور اس کے رسول کا طرفدار جانتا ہے یا نہیں؟ مگر اس نے جواب نہ دیا پھر میں نے قسم کھا کر یہی بات کہی مگر جواب ندارد! میں نے تیسری مرتبہ یہی کہا تو ابو قتادہ نے صرف اتنا جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خوب معلوم ہے پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا آنسو جاری ہو گئے اور میں واپس چل دیا۔
میں ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ ایک نصرانی کسان جو ملک شام کا رہنے والا تھا اور اناج فروخت کرنے آیا تھا وہ میرا پتہ لوگوں سے معلوم کر رہا تھا تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ کعب بن مالکؓ ہیں وہ میرے پاس آیا اور غسان کے نصرانی بادشاہ کا ایک خط مجھے دیا جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم پر بہت زیادتی کر رہے ہیں حالانکہ اللہ نے تم کو ذلیل نہیں بنایا ہے تم بہت کام کے آدمی ہو تم میرے پاس آ جاؤ ہم تم کو بہت آرام سے رکھیں گے میں نے سوچا یہ دوہری آزمائش ہے اور پھر اس خط کو آگ کے تندور میں ڈال دیا ابھی صرف چالیس راتیں گزری تھیں اور دس باقی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو میں نے کہا کیا مطلب ہے؟ طلاق دے دوں یا کچھ اور خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا بس الگ رہو اور طلاق نہ دو ایسا ہی حکم میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ملا تھا غرض میں نے بیوی سے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں میں جا کر رہو جب تک اللہ تعالیٰ میرا فیصلہ نہ فرما دے۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ہلال بن امیہؓکی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہلال بن امیہؓ میرا خاوند بہت بوڑھا ہے اگر میں اس کا کام کر دیا کروں تو کوئی برائی تو نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کچھ نہیں مگر صرف یہی اس نے عرض کیا حضور اس میں تو ایسی خواہش ہی نہیں ہے اور جب سے یہ بات ہوئی ہے رو رہا ہے اور جب سے اس کا یہی حال ہے کعبؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے کچھ میرے عزیزوں نے کہا کہ تم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا کر اپنی بیوی کے بارے میں ایسی ہی اجازت حاصل کر لو تاکہ وہ تمہاری خدمت کرتی رہے جس طرح ہلال رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اجازت مل گئی ہے میں نے کہا خدا کی قسم! میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا فرمائیں میں نوجوان آدمی ہوں ہلال کی مانند ضعیف نہیں ہوں غرض اس کے بعد وہ دس راتیں بھی گزر گئیں اور میں پچاسویں رات کی صبح کو نماز کے بعد اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور زمین میرے لئے باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو چکی ہے۔
اتنے میں کوہ سلع پر سے کسی پکارنے والے نے نہایت بلند آواز سے کہا اے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ تجھے خوش خبری ہو اس آواز کے سنتے ہی میں خوشی سے فوراً سجدے میں گر پڑا اور یقین کر لیا کہ اب یہ مشکل آسان ہو گئی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھ کر ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان کر دیا تھا لوگ مجھے خوش خبری دینے آئے اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی کچھ خوش خبری دینے والے گئے۔
ایک آدمی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے کو بھگاتے ہوئے میرے پاس آئے اور ایک بنی سلمہ کا آدمی سلع پہاڑ پر چڑھ گیا اس کی آواز جلدی میرے کانوں تک پہنچ گئی اس وقت میں اس قدر خوش ہوا کہ اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو دیدیئے میرے پاس ان کے سوا کوئی دوسرے کپڑے نہیں تھے میں نے ابو قتادہؓ سے دو کپڑے لے کر پہنے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جانے لگا راستہ میں لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تمہیں مبارک ہو۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرما تھے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے طلحہ بن عبیداللہؓ مجھے دیکھ کر دوڑے مصافحہ کیا پھر مبارک باد دی۔
خدا گواہ ہے کہ میں ان کا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے کعب! یہ دن تمہیں مبارک ہو جو سب دنوں سے اچھا ہے تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک میں نے عرض کیا حضور! یہ معافی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے فرمایا اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاف کیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا اور ہم آپ کی خوشی کو پہچان جاتے تھے۔
پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنی اس نجات اور معافی کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے خیرات نہ کر دوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھوڑا کرو اور کچھ اپنے لئے بھی رکھو کیونکہ یہ تمہارے لئے فائدہ مند ہے میں نے عرض کیا ٹھیک ہے میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں پھر میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! میں نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات پائی ہے اب میں تمام زندگی سچ ہی بولوں گا خدا کی قسم! میں نہیں کہہ سکتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے اللہ نے کسی پر ایسی مہربانی فرمائی ہو جیسی مجھ پر کی ہے اس وقت سے جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سچی بات کہہ دی پھر اس وقت سے اب تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں امید کرتا ہوں کہ زندگی بھر خدا مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔
(صحیح البخاری: کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک وقول اللہ عزوجل (وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا)
(صحیح مسلم: کتاب التوبہ، باب حدیث توبۃ کعب بن مالک وصاحبیہ)
(مسند احمد: حدیث کعب بن مالک الانصاری)