خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق ؓ کا دور تھا۔ اسلامی حکومت سرعت سے وسیع ہو رہی تھی۔ اللہ کے نام لیوا دُور دراز علاقوں میں اس کے نام کی سربلندی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے اور مملکت اسلامی کی حدود ایران سے افریقہ تک پھیل گئی تھی۔ ان ہی دنوں مسلمانوں نے مصر پربھی اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ اسلامی فوج فنون حرب میں نہ صرف پوری طرح ماہرتھی بلکہ اس کا ہر سپاہی شوق شہادت سے سرشار تھا۔ زمینی جنگ میں اس وقت دنیا میں کوئی زبردست سے زبردست فوج بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ آپؐ کی تعلیمات کا اعجاز ہی تھا کہ عرب کے صحرا نشینوں اور بے سرو سامان بدوؤں کے آگے ایران و روم کی عظیم الشان سلطنتیں تنکے کی طرح بہہ گئیں۔ ان تمام فتوحات اور فنون جنگ میں مہارت کے باوجود مسلمان فوج بحری جنگ کے نقطہ نظر سے خاصی کمزور تھی کیونکہ مسلمانوں کو اب تک نہ بحری جنگ کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اور نہ ہی ان کا واسطہ کسی ایسے دشمن سے پڑا تھا۔ جس نے ان پر بحری جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس دور میں بحر روم کے کناروں پر آباد ممالک دیگر ملکوں کے مقابلے میں نہ صرف فن جہاز رانی میں ماہر تھے، بلکہ بحری جنگ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ فتح مصر کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاصؓ کو لکھا:’’میں نے سنا ہے کہ اس علاقے میں ہمارے مجاہدین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمندر ہے۔ وہاں کے لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر یوں لڑتے ہیں۔ جیسے سمندر ان کے اشاروں کے تابع ہو۔ آپ مجھے وہاں کی مکمل صورت حال سے آگاہ کریں‘‘۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ نے جواب میں لکھا:’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مجاہد دنیا کے بہترین مجاہد ہیں۔ خشکی پر ان کا مقابلہ سلطنت روما اور ایران نہ کر سکیں تو یہ مٹھی بھر ماہی گیر کیا چیز ہیں، لیکن جنگی حکمت عملی میں انہیں ہم پر برتری حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہمارے پاس جنگی کشتیاں نہیں ہیں دوسرے ہماری فوج بحری جنگ کے طریق کار سے کلیتاً نابلد ہے‘‘۔
سیدنا عمر فاروق ؓ نے جواب میں حکم دیا کہ بحری جنگ میں اس وقت تک حصہ نہ لیا جائے جب تک ہماری سپاہ اس کی تربیت حاصل نہ کر لیں چنانچہ سیدنا عمر و بن العاصؓ نے فوری طور پر بحری جنگ کا ارادہ ملتوی کر دیا اور تمام لشکر کو ہدایت کردی کہ فی الحال بحری جنگ سے اجتناب کیا جائے۔ سیدنا عمر و بن العاصؓ کی فوج میں ایک نوجوان اور پُر جوش سردار عرفجہ بن ہرثمہ الازومی بھی تھا۔ یہ نوجوان نہ صرف شوق شہادت سے سرشار تھا، بلکہ کئی جنگوں میں اپنی صلاحیت اور جواں مردی کے جوہر دکھا چکا تھا۔ اس کی کمان میں لڑنے والا ایک ایک مجاہد سو سو دشمنان دین پر بھاری تھا۔ اس نے جب سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ فرمان سنا کہ دشمنوں کو سمندروں میں نہ چھیڑا جائے تو سخت جزبز ہوا۔ اس نے اپنے طور پر طے کر لیا کہ سمندر میں دشمن کو ہر قیمت پر شکست دینا ہے گو اسے جہاز رانی کا تجربہ بالکل نہیں تھا مگر جوشِ جذبات میں وہ ان سے سمندر میں بھی جنگ کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ ایک دن وہ فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاصؓ کے خیمے میں داخل ہوا تو وہ سر جھکائے چند اہم نوعیت کے کاغذات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ عرفجہ کو دیکھ کر انہوں نے کاغذات ایک طرف رکھے اور اس سے بولے’’ آئو عرفجہ، کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’جناب! میں چاہتا ہوں دشمنوں کو سمندر میں بھی عبرت ناک شکست ہو جائے۔ ہماری نرمی کو وہ لوگ ہماری کمزوری اور بزدلی سمجھ رہے ہیں۔ وہ چیخ کر چیلنج کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں اتنا ہی دَم خم ہے تو وہ کھلے پانیوں میں آجائیں۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکوں‘‘۔
سیدنا عمرو بن العاصؓ مسکرائے اور بولے: ’’عرفجہ! تمہارے خیالات اور جذبات قابل قدر ہیں مگر یاد رکھو بہترین سپاہی وہی ہوتا ہے جو جنگی حکمت عملی پر عبور رکھتا ہو، یقیناً ہم دشمن کو اس کا جواب دیں گے مگر اس کے لئے ہمیں کچھ صبر کرنا ہوگا۔ اس وقت تک جب تک ہم بحری جنگ میں مہارت حاصل نہ کر لیں‘‘۔
عرفجہ بن ہرثمہ سپہ سالار اعلیٰ کے خیمے سے مایوس اور دل گرفتہ نکلا اور باہر جا کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اس کے دل میں رہ رہ کر یہی خیال آ رہا تھا کہ آخر اب تک ہم نے سمندر کو نظر انداز کیوں کیا ہے؟ ہمارے دشمن سمندری جنگ میں کیوں ماہر ہیں؟ اس کیوں، کا جواب اسے نہیں مل رہا تھا۔ وہ دیر تک بیٹھا خود سے سوال جواب کرتا رہا پھر تھک کر نڈھال سا اپنے خیمے میں چلا آیا۔
ان ہی دنوں مسلمانوں کا ایک جہاز سامان اور اسلحے سے بھرا ہوا روم کی طرف آ رہا تھا۔ جب وہ جہاز بلاوفرنگ کے نزدیک پہنچا تو ساحل پر بسنے والے پیشہ ور قزاقوں نے جہاز پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں نے آخر دم تک ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر یہاں بھی بحری جنگ سے ناواقفیت ان کے آڑے آئی اور وہ زیادہ دیر تک بحری جنگ کے ماہر قزاقوں کا مقابلہ نہ کر سکے دیکھتے ہی دیکھتے جہاز سطح سمندر پر تنکے کی طرح ڈولنے لگا کچھ جیالوں نے سمندر میں کود کر جان بچانا چاہی مگر وحشی قزاقوں نے انہیں اس کی بھی مہلت نہ دی اور جہاز کے مسافر سمندر کی تہہ میں گم ہوگئے۔
اس کی اطلاع جب عرفجہ بن ہر ثمہ کو ملی تو اس نے غصے کے عالم میں قسم کھائی’’ جب تک میں بحری قزاقوں سے اپنے ساتھیوں کی شہادت کا انتقام نہیں لوں گا۔ چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘۔ اس نے پھر علاقے کے چند ہنر مندوں کو اکٹھا کیا اور ان سے انتہائی مضبوط قسم کی جنگی کشتیاں بنانے کی فرمائش کی یہ کام اس نے اپنے طور پر کیا اس کا خیال تھا جب جنگی کشتیاں تیار ہو جائیں گی تو میں سیدنا عمر بن العاص کو اطلاع دے کر حیران کر دوں گا۔ فوراً ہی کشتیاں بننے لگیں عرفجہ نے چند سر فروشوں کے ساتھ مل کر کشتی رانی کی مشقیں بھی شروع کر دیں۔ مسلمان یوں بھی اپنی اس کمزوری سے بھنائے ہوئے تھے اس لئے ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ جلد از جلد کشتی رانی اور بحری جنگ میں ماہر ہو جائے اب ان کے سامنے صرف اور صرف ایک مقصد تھا دشمن کو کھلے پانیوں میں شکت دینا۔ صحرا نشین مجاہدوں کے لئے یہ صبر آزما اور مشکل کام تھا۔ ان کی زندگیاں گھوڑے کی پیٹھ پر گزری تھیں۔ شہسواری میں تو دنیا بھر میں عربوں کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ وہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بھی یوں سواری کرتے تھے جیسے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں اب وقت نے انہیں گھوڑے کی پیٹھ سے اُتار کر سمندر میں لڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سمندری جنگ میں مہارت کے لئے وقت درکار تھا۔ مگر عرفجہ جیسا جوشیلا سردار چاہتا تھا کہ وقت کو پَر لگ جائیں اور وہ پہلی فرصت میں بحر روم کے ساحلی قزاقوں کے دانت کھٹے کر سکے۔ بحری جنگوں کی مشقیں کوئی ڈھکی چھپی نہ تھیں کہ سالار اعلیٰ سیدنا عمرو بن العاصؓ کو ان کی اطلاع نہ ہوتی، ایک دن وہ بہ نفس نفیس وہاں پہنچ گئے۔ مسلمان مجاہد بحری جنگ کی مشقوں میں مصروف تھے۔ آپ نے بغور ان اقدامات کا جائزہ لیا اور عرفجہ کے جذبے کی تعریف کی عرفجہ نے نہایت احترام کے ساتھ عرض کیا ’’جناب، اب ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ دشمن کو کھلے سمندر میں للکار سکیں۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ ضرور امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ سے بحری جنگ کی اجازت دلوا دیں گے‘‘۔
فاتح مصر مسکرائے ان کی تجربہ کار نظریں دیکھ رہی تھیں کہ دشمنان دین کے عظیم الشان بحری بیڑوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں ایسی تھیں جیسے ہاتھی کے مقابلے میں بکری کے بچے سیدنا عمروؓ کی تمام عمر جنگوں میں گزری تھی۔ انہوں نے ایک ہی نظر میں بھانپ لیا کہ اگر ان چھوٹی کشتیوں سے دشمن کو للکارا گیا تو سوائے شکست کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ تاہم انہوں نے فوری طور پر عرفجہ کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور نہایت تحمل سے کہا’’ مجھے تمہاری صلاحیتوں پر اعتماد ہے مگر فی الحال میں بھی امیر المومنین کے احکام کا تابع ہوں۔ میں آج ہی ایک تیز رفتار قاصد خلیفہ وقت کی طرف روانہ کر دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ اب وہ ضرور ہمیں بحری جنگ کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ جانتے تھے کہ موجودہ صورت حال میں امیر المومنین کبھی اس جنگ کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ سیدنا عمرؓ کا خیال تھا کہ آج کل نا مساعد حالات میں دشمن کو سمندر میں چھیڑنا خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن انہوں نے ایک قاصد امیر المومنین کی طرف روانہ کر دیا۔ قاصد کی واپسی تک مسلمان مزید مشتعل ہو چکے تھے، کیونکہ اس دوران بحرہ روم کے بحری قزاق انہیں مزید زک پہنچا چکے تھے اور مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ قاصد کی آمد پر عرفجہ سمیت چیدہ چیدہ مسلمان سردار سالار اعلیٰ کے خیمے میں جمع ہوگئے۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ موقع کی نزاکت کو سمجھ رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے فوراً ہی قاصد کو اپنے خیمے میں طلب کر لیا۔ دھول، مٹی اور پسینے سے اٹا ہوا قاصد مسلسل سفر کے باعث نڈھال ہو رہا تھا وہ بوجھل قدموں سے فاتح مصر کے سامنے پیش ہوا اور یہ خبر سنائی کہ خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروقؓ نے فی الحال بحری جنگ سے اجتناب برتنے کا حکم دیا ہے۔ قاصد کے منہ سے یہ الفاظ سن کر مسلمان سرداروں کے چہرے مرجھا گئے۔ کچھ جوش جذبات سے مٹھیاں بھینچنے لگے۔ خیمے میں ایک گھمبیر خاموشی طاری ہوگئی۔ اس سناٹے کو عرفجہ کی گرج دار آواز نے مجروح کر دیا۔ ’’سالار اعلیٰ! دشمن مسلسل ہماری توہین کر رہا ہے اگر ہماری کمزوری کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب وہ ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری تذلیل کرے گا۔ امیر المومنین یہاں سے کوسوں دور بیٹھے ہیں۔ انہیں ہماری تذلیل و توہین کااندازہ نہیں ہے‘‘۔ عرفجہ کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔’’سالار اعلیٰ ہماری مثال اس شیر کی سی ہے جسے زنجیروں میں جکڑ کر گیڈروں اور آوارہ کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ اگر امیر المومنین ہمیں اجازت نہیں دیں گے تو میں معذرت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ دشمنوں سے اپنے طور پر جنگ کروں گا۔ چاہے اس کی پاداش میں آپ یا امیر المومنین مجھے ہمیشہ کے لئے حوالہ زنداں کر دیں‘‘۔
’’عرفجہ!‘‘ سیدنا عمروؓ کے لہجے میں سرزنش کے ساتھ ساتھ تاسف بھی تھا‘‘۔ جتنی تمہاری عمر ہے اتنے تو میرے جسم پر زخموں کے نشان ہیں جو دشمنوں سے جنگ کا نتیجہ ہیں۔ میرا تجربہ اور عمر بھی تمہارے سامنے ہے اور تم جانتے ہو کہ میں اسلام کی توہین برداشت کرنے والا نہیں ہوں۔ بات صرف وقت کی ہے ہر ایک کام کے لئے ایک مخصوص وقت ہوتا ہے۔ شوق جہاد بہت اچھی بات ہے۔ لیکن جانتے بوجھتے خود کو موت کے منہ میں جھونک دینا بہادری نہیں بلکہ خودکشی ہے تم سمجھتے ہو کہ امیر المومنین کو یہاں کے حالات کا علم نہیں ہے۔ یہ تمہاری بھول ہے عرفجہ امیر المومنین کو یہاں کے پل پل کی خبر ہے انہیں احساس ہے کہ ہم کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ وہ صرف مناسب وقت کے منتظر ہیں اس کے باوجود اگر تمہیں انتقام لینے کا اتنا ہی شوق ہے تو تم اپنا شوق پورا کر سکتے ہو‘‘۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ کی مختصر سی تقریر کے بعد خیمے میں ایک بار پھر بوجھل سناٹا طاری ہوگیا۔ بالآخر وہ سب خاموشی سے سر جھکائے وہاں سے رخصت ہوگئے۔ عرفجہ وقتی طور پر تو خاموش ہوگیا۔ لیکن اس نے اپنے طور پر ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے تن تنہا دشمنوں سے مقابلے کی ٹھان لی تھی۔ اس جیسے سو ڈیڑھ سو اور بھی سر پھرے تھے جو دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے بے تاب تھے۔ یہ سب وہ جیالے تھے جنہوں نے دن رات بحری جنگ کی مشقیں کی تھیں اور سمجھتے تھے کہ اگر دشمن کو مکمل طور پر ملیامیٹ نہ کر سکے تو اسے تگنی کا ناچ ضرور نچا دیں گے پھر ممکن ہے ان کی کامیابیوں سے خوش ہو کر امیر المومنین انہیں باضابطہ طور پر بحری جنگ کی اجازت دے دیں۔
رات بے حد تاریک اور سرد تھی۔ عرفجہ اپنے ڈیڑھ سو سرفروشوں کے ساتھ بحیرہ روم کے ساتھ ساحل پر کھڑا تھا ان کی چھوٹی چھوٹی تنگی کشتیاں کوچ کرنے کے لئے تیار تھی۔ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے عرفجہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’بہادرو! تم اچھی طرح جانتے کہ ہم جس مہم پر جا رہے ہیں اس سے واپسی کی امید نہ ہونے کے برابر ہے مگر یہ کام ضرور کر گزریں گے کہ دشمن آئندہ سمندری حدود میں مسلمانوں کو چھیڑنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ اسے اندازہ ہو جائے کہ عرب کے صحرا نشین اب سمندر پر بھی حاوی ہونے لگے ہیں ابھی وقت ہے تم میں سے جو واپس جانا چاہے جا سکتا ہے کیونکہ میرا چنا ہوا راستہ سیدھا شہادت کی وادی میں جاتا ہے، لہٰذا مقصد صرف فتح یا شہادت ہے۔ ہم سرخرو واپس آئیں گے یا وہیں اپنی جانیں قربان کر دیں گے‘‘۔ تمام مجاہدین نے یک زبان ہو کر کہا: ’’ ہم موت سے نہیں ڈرتے ہمارے سینوں میں جو الائو دہک رہے ہیں انہیں صرف دشمنوں کا خون ہی سرد کر سکتا ہے‘‘۔یوں عالم اسلام کا پہلا بے ضابطہ بحری بیڑہ بے سرو سامانی کی حالت میں جنگ کے لئے روانہ ہوگیا۔ سب سے آگے عرفجہ کی جنگی کشتی تھی جس کے مستول پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔ دشمن مسلمانوں کے حملے سے بے خبر لمبی تانے سو رہے تھے۔ مسلمان اچانک ان کے سروں پر جا پہنچے پھر وہ گھسمان کارن پڑا کہ بحیرہ روم کے بحری قزاقوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ ان کی ساری مہارت دھری کی دھری رہ گئی۔ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی جنگی کشتیاں اندھیرے کا فائدہ اٹھاتی ہوئی گھوم کر ان کے پیچھے پہنچ گئیں۔ اس معرکہ میں لا تعداد دشمنان دین موت کے گھاٹ اتر گئے۔ انہیں مسلمانوں سے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ وہ بحری جنگ میں بھی اتنی شدید مزاحمت کر سکتے ہیں۔ عرفجہ نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں سمیت بحری قزاقوں کے چھ سے زائد تباہ کن جنگی جہاز تباہ کر دئیے۔ قریب تھا کہ مسلمان ان کے پورے بحری بیڑوں کو غرق کر دیتے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دشمنوں کو مزید بارہ جنگی جہازوں کی تازہ کمک پہنچ گئی۔ مسلمان جان توڑ کر لڑے مگر ان دیوہیکل جہازوں کے سامنے ان کی چھوٹی کشتیوں کی ایک نہ چلی اور وہ ایک ایک کر کے سمندر کی تہہ میں اترتی چلی گئیں۔ عرفجہ کا جسم زخموں سے چور تھا مگر آخری وقت میں بھی اس نے دشمنوں کے سب سے بڑے جنگی جہاز ہیکل کو تباہ کر دیا۔ بحری جہاز کی تباہی سے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ مسلمان سمندر میں بھی ان کے لئے خطرہ ثابت ہونے والے ہیں۔ اس جنگ میں گو عرفجہ سمیت اس کے ساٹھ ساتھی شہید ہوگئے مگر دشمنوں کو سبق مل گیا کہ آئندہ مسلمانوں کو سمندر میں چھیڑنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔ اس جنگ کا نتیجہ بظاہر تو مسلمانوں کی شکست کی صورت میں نکلا مگر اس کے بعد دشمنوں کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ وہ کھلے پانیوں میں مسلمانوں کو للکار سکیں۔ صبح کے اجالے نے بحیرہ روم کو مسلمان شہیدوں اور کفار کے خون سے سرخ دیکھا۔ اس موقع پر فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاصؓ نے کہا: ’’گو عرفجہ نے امیر المومنین کے حکم سے انحراف کیا لیکن اس نے مسلمانوں کے لئے بحری جنگ کا راستہ کھول دیا اور اب امیر المومنینؓ جلد ہی بحری جہازوں کی طرف توجہ دیں گے‘‘۔ عرفجہ نے شہید ہو کر تاریخ اسلام کا ایسا باب رقم کیا جو آئندہ بحری جنگوں میں مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔