کالم

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم

اسرائیلی سفیر کے تازہ بیان نے مسلم دنیا میں ہلچل مچا دی ہے، دنیا اِسے صہیونیوں اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ سے تعبیر کررہی ہے تاہم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کا عرب ممالک سے امن معاہدہ ناکام ہو جائے گا۔اُنہوں نے کہا کہ امریکی سرپرستی میں سعودی عرب سے اسرائیل کے تعلقات بنانے کی کوششیں بے سود رہیں گی۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نئی راہیں متعین کیں اور اب کہا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل، سعودی عرب امن معاہدہ ہو جاتا ہے تو دیگر اسلامی ممالک بھی اِس معاہدے کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔متحدہ عرب امارت، بحرین، مراکش، سوڈان پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ۔ واضح رہے کہ حال ہی میںاسرائیل کے وزیرخارجہ نے کہاہے کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرتا ہے تو مزید چھ یا سات مسلم ممالک بھی اِس کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اِس معاہدے کا مقصد مسلم دنیا کے ساتھ اَمن ہے۔ اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے سعودی عرب کے علاوہ مزید چھ سے سات مسلم ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں جو افریقہ اور ایشیاء میں واقع ہیں، اِن ممالک کے ساتھ اسرائیل کے رسمی تعلقات نہیں ہیں تاہم اُنہوں نے اِن ممالک کے نام بتانے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسرائیل سے تعلقات کے معاملے پر واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفاد کو مدِنظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔ اِن کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیرخارجہ کی حالیہ کچھ عرصے میں کسی پاکستانی اہلکار سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں اِس وقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیرخارجہ سے ترکی کے شہر انقرہ میں 2005ء میں ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات ترکی کے صدر طیب اردگان کی کوششوں کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ ایک سینئر پاکستانی سفارتکار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جلد یابدیر اِس حوالے سے کوئی فیصلہ تو کرنا پڑے گا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ میزبان شاہی حکام سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کریں گے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے دنیا بھر میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں جن کے اثرات نہ صرف دنیا بلکہ مسلم امہ پر بھی پڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب نے شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں ایک نئے وژن کے ساتھ خارجہ پالیسی ترتیب دی ہے جس میں کلیدی اہمیت تجارت اور معیشت کی ہے۔ سعودی ولی عہد نے ایران سے ہاتھ ملا کر نہ صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو بڑھوا دیا۔ یمن اور قطر میں تصادم کی فضاء کے خاتمے میں کردار ادا کیاجبکہ یمن سعودی تنازعے کے حل میں بھی پیش رفت سامنے آ رہی ہے۔بہر حال اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم عروج پر ہے اور بہت سے ممالک اسے تسلیم کرچکے ہیں۔اس حوالے سے پاکستان کو بھی ظاہر ہے کہ جلد اپنی پوزیشن واضح کرناپڑے گی کیونکہ پاکستان کے عر ب دنیااور بالخصوص سعودیہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور سعودی عرب پاکستان کو مجبور کرسکتاہے کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرے۔اس ضمن میں پاکستان کو صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھنا ہوگا اور وہی فیصلے کرنا ہوں گے جو اس کے مفاد میں ہوں۔
آشوب چشم اور جعلی ادویات
ایک جانب مختلف شہروں میں آشوب چشم تیزی سے پھیل رہا ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ لاہور اور قصور کے بعد ملتان اور صادق آباد میں بھی انجکشن لگانے سے بینائی جانے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ مریض ملتان میں سامنے آئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں متاثرہ مریض سامنے آئے وہاں ملزم نوید انجکشن سپلائی کرتا تھا۔ذرائع ڈرگ کنٹرولر آفس کے مطابق اصل انجکشن بنانے والی کمپنی کے دو ڈسٹری بیوٹرز کو بھی مزید فروخت سے روک دیاگیا ہے۔ نگران وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے کہا ہے کہ انجکشنزکو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا جبکہ دو سپلائرز کیخلاف قانونی کارروائی کا آغازبھی ہو گیاہے۔ مختلف زاویوں سے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، مریضوں کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ دوسری جانب ڈریپ نے بخار کی دوا پیڈولل سسپنشن کے بیچ 167کو غیر معیاری قرار دے دیا ہے۔کس قدر تکلیف دہ امر ہے کہ ہسپتالوں‘ ڈسپنسریوں اور کلینکس پر علاج کیلئے استعمال ہونیوالے جعلی انجکشن ’’ایواسٹین‘‘ سے کئی مریض اپنی بینائی سے محروم ہو گئے۔ اب تک بینائی کے 68 کیسز سامنے آچکے ہیں جس کے بعد وزارت صحت نے فوری طور پر اس انجکشن پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ملک میں جعلی ادویات کا کاروبار عام ہے جس کے پیچھے ایک منظم مافیا سرگرم ہے۔ آشوب چشم میں استعمال ہونیوالے جعلی انجکشن نے جان بچانے والی ادویات کے میعاری ہونے میں شک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ حکومت کو انکی بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے اور جعلی ادویات کی تیاری وفروخت میں ملوث مافیازکے خلاف بھی سخت کارروائی کرناہوگی۔
عالمی ادارہ صحت اورپاکستان
طبی ماہرین ہیپاٹائٹس کو ایک خاموش مرض قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق مریضوں میں اس کے اثرات بیماری کے پھیل جانے کے بہت بعد میںظاہر ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مرض میں مبتلا لوگوں کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہیں جبکہ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہوچکے ہیں، پھر بھی علاج کی پروا نہیں کرتے اور مرض بگڑ جانے پر ان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔معالجین کے مطابق ہیپاٹائٹس سی کی وجوہات میں سرجری کے غیرمحفوظ آلات اور انتقال خون سرفہرست ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے تعاون اور اشتراک سے پاکستان نے 2030تک ملک کو ہیپاٹائٹس سی سے پاک کرنا ہے تاہم موجودہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت یہاں ایک کروڑ سے زائد افراد اس مرض کو اپنے ساتھ لئے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ سالانہ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ اس میں مبتلا ہورہے ہیں۔اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیپاٹائٹس کے خلاف منظم مہم پر عمل پیرا ہیں لیکن اس کے باوجود مرض میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اب دوروز قبل عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام نیویارک میں ہیپاٹائٹس کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس میں یہ انتہائی تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ ہیپاٹائٹس سی سے دوچارہونے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نام سب سے اوپر آگیا ہے جہاں اس کے مریضوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اس مرض کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اسے کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرنی چاہئیں اورعالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ کونظر انداز نہیںکرناچاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

%d