اتھارٹیزکے لیے ٹیسٹ کیس
ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے "یوم تکریم شہداء”منانے کانہایت احسن فیصلہ کیاجسے پوری قوم نے بہت سراہااوربڑے جذبے کے ساتھ 25مئ کو یوم تکریم شہداء منایااورشہدائے پاکستان کی بے لوث قربانیوں کی یاد تازہ کرنے اور ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے جذبے کو بھرپورخراج عقیدت پیش کیا۔یوم تکریم شہدائے پاکستان کی مرکزی تقریب کا گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی کی یادگار شہداء میں انعقاد ہوا جبکہ پاکستان ائر فورس ، پاکستان نیول ہیڈ کوارٹرز اور پولیس کی متعدد شہداء کی یادگاروں پر بھی خصوصی تقاریب منعقد ہوئیں۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومتوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں بھی یومِ تکریم شہدائے پاکستان کی پروقار تقاریب منعقد ہوئیں۔ افواج پاکستان، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے سکیورٹی اداروں کے دستوں نے شہداء کی یادگاروں پر سلامی دی۔ مورخہ نومئی کو ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں اور اس کی صفوں میں موجود شرپسندوں نے ملک میں جو غدر مچایا اس کی ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بالخصوص جناح ہائوس میں جس انداز کی تخریب کاری کی گئی وہ شائد ہمارا دشمن بھی ہمیں کمزور سمجھ کر نہ کر پاتا۔آج آئ ٹی کادورہے اورپوری قوم نےجناح ہاوس میں کی جانے والی تباہ کاریوں اور دہشت گردی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیاہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہمارے اس تاریخی ورثہ اور اس اہم عمارت پر پاکستان کی سلامتی و خودمختاری اور افواج پاکستان کے دفاع وطن کے لئے مر مٹنے کے جذبہ کے خلاف اپنے خبثِ باطن کے اظہار کے لئے جناح ہاوس کے کونے کونے پر موجود ہرچیز کو کسی طے شدہ ایجنڈے کے ساتھ تہس نہس کیا گیا ہے۔ اس تباہی کے دلدوز مناظر دیکھتے ہوئے کسی آنکھ کے ضبط کے بندھن ٹوٹنے سے رہ نہیں سکتے۔ خاکستر کئے گئے جناح ہائوس کا اب تک قومی سیاسی، دینی، عسکری قیادتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا گروپس سمیت قوم کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی ہر شخصیت اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکی ہے ۔ ہماری سالمیت کے درپے مکار دشمن بھارت کو بھی ہماری اندرونی کمزوریوں کو بھانپ کر اپنی سازشوں کے جال بچھانے کا مزید موقع ملا ہے۔ اس کے ازالے اور قوم کا مورال بلند رکھنے کے لئے ہی -25 مئی کو یومِ تکریم شہدائے پاکستان کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اور بطورِ خاص جناح ہاوس لاہور میں خصوصی تقریب کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا جبکہ ملک بھر میں سرکاری، نیم سرکاری اور نجی سطح پر یوم تکریم شہدائے پاکستان کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں شہداء کے لئے قرآن خوانی ، بلندیٔ درجات کی دعاوں اور ملک کی ترقی و سلامتی کی خصوصی دعاوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی اسی کے متعلق اپنے ٹویٹر پیغام میں اور جناح کنونشن سنٹر میں منعقدہ تحفظِ شہداء کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے بجاطور پر اس امر کا اظہار کیا کہ شہداء ہمارے ہیروز ہیں جن کی تکریم پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 86 ہزار سے زائد قربانیوں کی وجہ سے ملک میں امن و استحکام آیا ہے مگر جو کچھ -9 مئی کو ہوا، وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وزیر اعظم کے بقول تحریک انصاف کے شرپسندوں اور اس کے سربراہ عمران خان نے جس طرح لوگوں کو مشتعل کیا، یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس کا ماسٹر مائنڈ عمران خان تھا۔انہوں نے باور کرایا کہ عمران خان نے اپنی حکومت میں پوری اپوزیشن کو جیلوں میں ڈال دیا مگر ہم نے گرفتاریاں دے دیں، جیلوں میں چلے گئے، کوئی گڑبڑ یا توڑ پھوڑ نہیں کی، ریاستی دفاعی اداروں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ انہوں نے واضح کہا کہ -9 مئی کی تخریب کاری میں ملوث کوئی بھی شخص قانون کی عملداری کی زد میں آنے سے نہیں بچے گا۔ تاہم کسی بے گناہ کو نہیں پکڑا جائے گا۔
قبل ازیں وفاقی کابینہ بھی باور کراچکی ہے کہ صرف انہی لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں یقین ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ وفاقی کابینہ نے یہ دوٹوک اعلان کیا ہے کہ -9مئی کے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہونے پر ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہی مقدمہ چلے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومتی ریاستی اتھارٹی کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔اگراب شرپسندوں سے نرمی برتی گئ توپھر اگر خدانخواستہ ایساسانحہ رونماہواتو اس کی شدت سانحہ نومئ سے بھی زیادہ ہوگی۔
وادی کشمیراورعالمی برادری
مقبوضہ وادی میں جی ٹونٹی اجلاس کی ناکامی بھارت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔جن رکن ممالک نے اس کانفرنس کابائیکاٹ کیاان کا یہ عمل لائق تحسین ہے۔واضح رہے کہ غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں گروپ 20کا تین روزہ اجلاس سخت سیکورٹی حصار میں 22 مئی کوشروع تو ہوا تاہم بھارت کوسخت ہزیمت کا سامنا کرناپڑ رہا ہے اور کانفرنس شروعات سے پہلے ہی دم توڑگئی کیونکہ چین، سعودی عرب اور ترکیہ نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جبکہ مصراور، انڈونیشیا سمیت کئی ممالک کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جی 20اجلاس کے انعقاد کیلئے سخت سیکورٹی پر بھارتی مبصرین بھی بول اٹھے کہ سیاحت کے فروغ کیلئے ہونے والی کانفرنس میں کمانڈوز کی تعیناتی، سخت سیکورٹی اور حصار سے دنیا کو کیا پیغام گیاہے۔کانفرنس کے انعقاد کیخلاف مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی اورآزاد جموں و کشمیراور یورپ میں مظاہرے کئے گئے۔بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مسلمان اکثریت والے تینوں ملکوں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے وفود کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔G-20کے رکن ملکوں میں بھارت، امریکہ، چین، برطانیہ، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل، انڈونیشیا،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہیں۔مودی سرکار نے کشمیریوں کو جبری ہتھکنڈوں کیخلاف اقوام عالم میں آواز بلند کرنے سے روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی اپنی دس لاکھ سکیورٹی فورسز کے حوالے کرکے کشمیریوں کو انکے گھروں میں محصور کر دیاہے۔بھارت کا دوغلا پن ملاحظہ کیجیے کہ وہ خود تو پوری دنیامیں مسلمانوں کی شدت پسندی دہشت گردی کا جھوٹا واویلا کرتا ہے لیکن اس نے خود اپنے ہاں اور بالخصوص مقبوضہ وادی کے مسلمانو ں کی زندگی اجیرن بناکررکھ دی ہے۔عالمی اداروں اور قوتوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کاسخت نوٹس لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔
دہشت گردی کاعفریت
شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں خودکش دھماکہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق گاڑی میں سوار خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔ دھماکے میں دو فوجی جوان‘ ایک پولیس اہلکار اور ایک شہری شہید ہو گئے۔ شہداء میں نائیک سید ا شاہ‘ سپاہی جواد خان شامل ہیں۔ خود کش بمبار ایک بڑے عوامی اجتماع کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ دھماکے میں پولیس کانسٹیبل جان اور ایک شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے پے واقعات بتارہے ہیں کہ کالعدم شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے لیے ایک بار پھر پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں۔اس میں ہرگز شک نہیں ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے بہت سی قربانیاں دے کر ان شدت پسند تنظیموں پر قابو پایا تھا اور ان کے ٹھکانے بھی تباہ کردیے تھے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں افغانستان کو جس برے حال میں چھوڑ کر گئیں اس سے ان تنظیموں کو پھر سے فعال ہونے کا موقع مل گیاہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی تو ہزاروں کلومیٹر دور جا کر بیٹھ گئے لیکن اب پاکستان افغانستان میں پیدا ہونے والی خرابی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر اپنے ہزاروں افراد شہید کراچکا ہے اور کھربوں روپے کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور پاکستان کو اس کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کسی نہ کسی طرح امریکا ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ انہی مسائل کے باعث ہمیں مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اس میں چنداں شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہماری سکیورٹی فورسز کارروائیاں کررہی ہیں لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے اور اس سلسلے میں افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیاجائے۔پوری قوم دہشت گردوں کی ان مذموم کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اپنے بہادر جوانوں اور افسروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتی ہے۔قوم کایہ عزم ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔