رسولؐ پاک کی بعثت کے عظیم مقاصد!
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے، شاہدو مبشر اور نذیرو بشیر کی حیثیت سے تشریف لائے تو اس لئے کہ دنیا کے رہنے والوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے، صحیح معنوں میں اشرفِ مخلوقات اور مسجودِ ملائکہ بنایا جاسکے۔
4نبوت میں جب پہلی بار اسلامی دعوت منظر عام پر آئی تو مشرکین نے اسے روکنے کیلئے بہت سی کارروائیاں سرانجام دیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ کارروائیاں اسلام کی راہ روکنے کیلئے کوئی کارگر ثابت نہیں ہو رہیں تو تقریباً25 کے قریب سرداران قریش جمع ہوئے اور ایک انجمن بنائی گئی جس کا سرپرست اعلیٰ خود رسول اللہﷺ کا چچا ابولہب تھا، چنانچہ اس کمیٹی نے باہمی مشاورت اور پورے غوروخوض کے بعد نبی محترمﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ کرام کے خلاف ایک فیصلہ کن قرارداد منظور کی اور یہ طے کیا کہ اسلام کی مخالفت پیغمبر انقلابﷺ کی ایذا رسانی اور اسلام کے ماننے والوں کو طرح طرح کے جوروستم، ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔
ادھر رسول اللہﷺ کو معلوم تھا کہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے، وہاں کسی پر ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق رجب5نبوی صحابہ کرام کے پہلے گروہ نے آنحضرتö کے حکم پر اپنے دین کی حفاظت کیلئے ہجرت فرمائی، اس گروہ میں 12 مرد اور 4خواتین شامل تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ انکے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ بھی تھیں۔ جنکے متعلق زبان رسالت سے یہ بے مثال جملہ ارشاد ہوا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوطؑ کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت فرمائی۔
یہ لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور چپکے سے اپنی نئی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے بعد پھر ایک بار قریش کا ظلم و ستم اور بڑھ گیا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو پھر ہجرت حبشہ کی طرف مشورہ دیا، اس بار تقریباً 82 مرد اور 18 کے قریب خواتین نے راہ خدا میں ہجرت فرمائی۔ چنانچہ مشرکین کو اس بات پر بہت زیادہ غصہ آیا کہ مسلمان اپنی جان اور دین بچا کر ایک پرامن جگہ بھاگ گئے ہیں۔ انہوں نے عمرو بن عاص و عبداللہ بن ربیعہ جو گہری سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کے مالک تھے (اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) ان دونوں کو بہترین تحفے دے کر حبش روانہ کیا، انہوں نے دربار نجاشی میں تحفے تحائف پیش کرتے ہوئے اپنا مدعا یوں بیان کیا:
اے بادشاہ حبش! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں، انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے بلکہ ایک نیا دین ایجاد کر لیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ہی آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کے والدین، چچائوں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں واپس انہی کے ہاں بھیج دیں۔ درباریوں نے کہا، بادشاہ سلامت! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیہ کو گہرائی سے دیکھنا اور اس کے تمام پہلوئوں کو سننا ضروری ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا اور وہ یہ تہیہ کر کے دربار میں حاضر ہوئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔
جب مسلمان حاضر خدمت ہوئے تو نجاشی نے پوچھا کہ وہ کونسا دین ہے جس کی بنیاد پر تم نے اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور نہ کسی کی ملت میں؟ مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر بن ابی طالبؓ دربار نجاشی میں کھڑے ہوئے اور اپنے ما فی الضمیر کا کچھ ایسے شاندار الفاظ میں اظہار فرمایا:
’’اے بادشاہ! ہم ایک ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی۔ ہم بتوں کے پجاری، مردار کھانے والے، بدکاریاں کرنے والے، قرابت داروں سے تعلق توڑنے والے، ہمسایوں سے بدسلوکی کرنے والے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ اس کی عالی نسبی، سچائی، امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھی۔ اس پیغمبرؐنے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں، اسی کی عبادت کریں، اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، قرابت جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے، حرام کاری اور خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اس نے ہمیں نماز اور زکوٰۃ کے ادا کرنے کا حکم دیا‘‘۔ اسی طرح حضرت جعفرؓ اسلام کی صداقت کو بیان کرتے ہوئے شاہ حبش کی خدمت میں عرض گزار ہوئے:
’’ہم نے اس پیغمبر کو سچا پایا اور اس پر ایمان لے آئے، اس کے لائے ہوئے دین خداوندی میں اس کی پیروی کی۔ ہم نے صرف ایک اللہ کی عبادت کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا، انہیں حرام مانا اور جن کو حلال بتایا، ان کو حلال مانا بس اسی وجہ سے یہ قوم ہم سے بگڑ گئی۔ انہوں نے ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور ہمیں اپنے دین سے پھرنے کیلئے فتنے اور سزائوں سے دوچار کیا تا کہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں۔ جب انہوں نے ہم پر قہر و ظلم کیا، زمین تنگ کر دی، ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ! آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں ہوگا‘‘۔
نجاشی نے دریافت کیا کہ وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں، اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟ حضرت جعفرؓ نے کہا ہاں۔ نجاشی نے کہا ذرا مجھے بھی پڑھ کر سنائو، حضرت جعفرؓ نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔
نجاشی اس قدر رویا کہ اس کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہو گئی، تمام اسقف بھی تلاوت قرآن سُن کر اس قدر روئے کہ ان کے صحیفے تر ہو گئے۔ پھر نجاشی نے کہا یہ کلام اور وہ کلام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے، دونوں ایک ہی شمع دان سے نکلے ہیں۔ اس کے بعد نجاشی نے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو مخاطب کر کے فرمایا: تم دونوں چلے جائو، میں ان لوگوں کو کسی قیمت پر تمہارے حوالے نہیں کر سکتا اور نہ یہاں ان کے خلاف کوئی چال چلی جا سکتی ہے۔
آج ہم اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں کہ وہ برائیاں جو صحابی رسول نے بیان کیں کہ آپؐ کی آمد سے پہلے ہم ان جیسے بے شمار گناہوں میں مبتلا تھے مگر آپ کی تشریف آوری اور آپ کا کلمہ پڑھ لینے کے بعد ہم نے ان کو ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا ہے اور اپنے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو بٹھا لیا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی پیغمبر انقلابؐ کے آنے کے بعد اُن لوگوں کے اندر کس طرح انقلاب برپا ہوا۔ آج ہم بھی محبت رسولؐ کے دعوے کرنے والے، حرمت رسولؐ پر اپنی جانوں کو نچھاور کرنے والے، اپنے آپ کو اپنے محبوب رسولؐ کے امتی کہلانے والے، کیا آج اللہ کی توحید اور پیغمبر انقلاب کی رسالت کی گواہی دینے کے بعد کہیں وہ تمام تر برائیاں ہمارے اندر موجود تو نہیں؟ کیا ہم صرف اکیلے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں؟ کیا جھوٹ، حرام کاری، سودی کاروبار، رشوت خوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی، قتل و غارت گری ایک دوسرے کی حق تلفی، ہمسایوں کو تنگ کرنا و دیگر خرافات سے ہم نے اپنے دامن کو صاف رکھا ہوا ہے؟ کیا واقعی ہم نے رسول ہاشمیؐ کی آمد کا حق ادا کر دیا اور ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا ہو چکا اور ہم کامیاب مسلمان بن چکے؟؟
اگر ایسا نہیں… تو پھر ہمیں اپنی اصلاح کر لینا چاہیے، ہمیں اپنے اندر ضرور تبدیلی لانا چاہیے۔ آج ہمیں سچے مسلمان بن کر ہر قسم کے جھوٹ، فراڈ، شراب نوشی رشوت خوری، زنا کاری، قتل و غارت گری، تہمت بازی، الزام تراشی، بدعنوانی و دیگر منہیات سے اپنے آپ کو بچا لیں نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔